Tuesday, December 24, 2024
ہومWorldفتح اللہ گولن کا انتقال؛ مبلغ سے ایردوان کی مخالفت تک کا...

فتح اللہ گولن کا انتقال؛ مبلغ سے ایردوان کی مخالفت تک کا سفر


  • امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے فتح اللہ گولن 83 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
  • فتح اللہ گولن نے ترکیہ سمیت مختلف ممالک میں اسلامی تحریک ‘حزمت’ کی بنیاد رکھی تھی۔
  • ایک وقت میں فتح اللہ گولن رجب طیب ایردوان کے اتحادی تھے، تاہم پھر یہ قربتیں شدید مخالفت میں بدل گئیں۔
  • ایردوان نے 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کا ذمے دار بھی گولن کو قرار دیا تھا۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کے سخت مخالف فتح اللہ گولن 83 برس کی عمر میں امریکہ میں انتقال کر گئے۔

فتح اللہ گولن نے ترکیہ سمیت مختلف ملکوں میں اسلامی تحریک ‘حزمت’ کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ 1999 سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔

فتح اللہ گولن پر ترکیہ میں 2016 میں ہونے والی فوجی بغاوت کی سازش کا بھی الزام تھا۔ فوجی بغاوت کے دوران درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تاہم اس کے بعد ایردوان حکومت نے گولن سے منسلک افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا تھا۔

گولن کے بیانات شائع کرنے والی ویب سائٹ ‘ہرکول’ کے مطابق 83 سالہ گولن کی موت اتوار کی شام امریکہ کے ایک اسپتال میں ہوئی جہاں وہ چند روز سے زیرِ علاج تھے۔

ایک وقت میں فتح اللہ گولن ترک صدر رجب طیب ایردوان کے اتحادی تھے۔ لیکن پھر یہ قربتیں شدید مخالفت میں بدل گئیں۔ ایردوان نے 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کا ذمے دار بھی گولن کو قرار دیا تھا۔

اس بغاوت کے دوران ترک فوج کے ایک دھڑے نے لڑاکا طیاروں، ٹینکس اور ہیلی کاپٹرز کی مدد سے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس بغاوت کے خلاف بڑی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

اس دوران ہونے والی جھڑپوں میں 250 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ گولن نے فوجی بغاوت پر اکسانے کے الزامات کی تردید کی تھی۔

ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حقان فدان نے گولن کے انتقال پر اُنہیں ‘تاریک تنظیم’ کا سربراہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔

نیوز کانفرنس کے دوران ترک وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ “دہشت گردی کے خلاف ہماری قوم کا عزم برقرار رہے گا اور گولن کی موت سے اس عزم میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔”

گولن تحریک کے حامیوں کے مطابق تحریکِ ‘حزمت’ کا مقصد اسلام کی ایک جدید شکل متعارف کرانا ہے جس کے تحت مغربی نظامِ تعلیم، فری مارکیٹ اور بین المذاہب روابط کا فروغ شامل ہے۔

لیکن ماہرین کے مطابق بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے ترکیہ میں تحریک کا اثر و نفوذ بہت کم ہوا ہے جب کہ عالمی سطح پر بھی اس کی پذیرائی کم ہوئی ہے۔

چائے خانوں میں تبلیغ اور ہاسٹلز کا قیام

اپنے حامیوں میں ‘ہودجافیندی’ یا قابل احترام استاد کے نام سے جانے جانے والے گولن 1941 میں ترکیہ کے مشرقی صوبے ایرزورم کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔

اُن کے والد اسلامی مبلغ اور امام تھے۔ یہی وجہ تھی گولن نے بھی بجپن سے قرآن کا مطالعہ شروع کیا۔

سن 1959 میں گولن کو شمال مغربی شہر ایدرین میں مسجد کا امام مقرر کیا گیا۔ وہ 1960 کی دہائی میں مغربی صوبے ازمیر میں ایک مبلغ کے طور پر مشہور ہوئے۔ یہاں اُنہوں نے طلبہ کے ہاسٹلز بنائے اور تبلیغ کے لیے مقامی چائے خانوں میں جانے لگے۔

بعد ازاں طلبہ کے لیے بنائے گئے یہ ہاسٹل ایک نیٹ ورک میں بدل گئے اور آںے والی دہائیوں میں اس سے وابستہ افراد تعلیم، کاروبار، میڈیا اور دیگر اداروں میں پھیل گئے۔ پھر اس تحریک کے تحت وسطی ایشیا، افریقہ، بلقان اور دیگر ممالک میں اسکولوں کا نیٹ ورک بھی قائم کیا گیا۔

ایردوان کے اتحادی اور پھر مخالف

فتح اللہ گولن کی تحریکِ ‘حزمت’ 2013 تک ایردوان کی ‘اے کے پارٹی’ کی اتحادی تھی۔ تاہم ایردوان حکومت میں شامل بعض وزرا اور قریبی ساتھیوں کے خلاف بدعنوانی کی تحقیقات نے دونوں میں دوریاں پیدا کر دیں۔

گولن کی ‘حزمت’ تحریک سے تعلق رکھنے والے استغاثے اور پولیس کو ان تحقیقات کا ذمے دار قرار دیا گیا اور 2014 میں گولن کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔ دو برس بعد تحریک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔

سن 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایردوان نے گولن کی تحریک کو ملک کے لیے ‘کینسر’ قرار دیا۔ اس دوران گولن تحریک سے وابستہ اسکولز، میڈیا اداروں اور کمپنیوں کو بند کر کے ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے۔

گولن نے فوجی بغاوت پر اُکسانے کے الزام کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود گزشتہ پانچ دہائیوں سے فوجی بغاوتوں کی وجہ سے مشکلات سہہ چکے ہیں۔ لہذٰا اُنہیں فوجی بغاوت کا ذمے دار قرار دینا توہین ہے۔

ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکیہ میں گولن کے 77 ہزار حامیوں کو گرفتار کیا گیا۔ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ اساتذہ، ججز، فوجیوں اور دیگر ریاستی اہلکاروں کو ایمرجینسی قانون کے تحت معطل کر دیا گیا تھا۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں