|
مسجد حرام کے امام و خطیب ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی نے مسجدِ نمرہ سے خطبہ حج دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام ہمیں جو تعلیمات دیتا ہے اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ نہ کسی کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ خود نقصان اٹھایا جائے۔
ہفتے کو میدانِ عرفات میں جمع ہونے والے لاکھوں حجاج سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہر بن حمد نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں قریبی رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کی مدد کریں۔
مکہ کے نواح میں واقع میدانِ عرفات میں ٹھہرنا حج کا سب سے اہم رکن ہے جسے وقوفِ عرفہ کہا جاتا ہے۔
عرفات میں قیام کے دوران عازمین حج خطبۂ حج سنتے ہیں اور اس کے ساتھ دعائیں اور عبادات کرتے ہیں۔
خطبۂ حج میں ڈاکٹر ماہر بن حمد نے مسلمانوں کو دینی تعلیمات پر عمل کرنے کی تاکید کی۔
انہوں نے کہا کہ قرآن ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم کیا جائے۔ فساد سے دور رہا جائے۔
خطبۂ حج میں ڈاکٹر ماہر نے کہا کہ ہمیں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور عزیز رشتے داروں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔
خطبے کے دوران انہوں نے غزہ میں جاری جنگ کے متاثرین کے لیے بھی دعا کی اپیل کی۔
ماہر بن حمد المعیقلی نے کہا کہ اس وقت فلسطینیوں کے لیے دعا کرنی چاہیے جو تکلیف میں ہیں۔ ’’دشمن نے ان کا خون بہایا ہے۔ انہیں پانی، بجلی اور خوراک میسر نہیں۔ ہمیں ان کے لیے دعا کرنی چاہیے اور ان کے لیے بھی جو انہیں خوراک اور دیگر ضروریات پہنچا رہے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کا حالیہ تنازع سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اب تک 37 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
دنیا بھر سے 15 لاکھ سے زیادہ عازمین، حج کے لیے مکہ آئے ہیں۔ سعودی حکام کے مطابق مقامی حجاج کی آمد سے اس سال عازمین حج کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں ہلاک یا زخمی ہونے والے فلسطینیوں کے خاندانوں کے ایک ہزار مزید افراد بھی سعودی عرب کے شاہ سلمان کی دعوت پر حج کرنے پہنچے ہیں۔
مدعو کیے گئے یہ ایک ہزار فلسطینی رفح کی بندش سے پہلے ہی غزہ سے باہر تھے جن میں سے زیادہ تر مصر میں موجود تھے۔
اس سے قبل حجاج گزشتہ شب منی پہنچے تھے جہاں سے مناسکِ حج کی ادائیگی شروع ہو گئی تھی۔
ہفتے کو غروبِ آفتاب تک عرفات میں قیام کے بعد حجاج چند کلومیٹر کا سفر کر کے مزدلفہ کے نام سے مشہور مقام پر کنکریاں اکٹھا کریں گے جنہیں وہ منیٰ میں واپس جا کر ان ستونوں پر ماریں گے جنہیں شیطان کے علامتی ستون یا جمرات کہا جاتا ہے۔
حجاج پھر تین دن کے لیے منیٰ واپس آتے ہیں جو عید الاضحیٰ کے تہوار کے دن ہوتے ہیں جب دنیا بھر کے مسلمان مویشیوں کی قربانی کرتے ہیں اور غریبوں میں گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج مناسک کی ادائیگی کے بعد مکہ واپس آتے ہیں اور خانہ کعبہ کا الوداعی طواف کرتے ہیں۔
اس سال عازمینِ حج کو شدید گرمی کا سامنا بھی ہے۔ سعودی وزارت صحت نے خبردار کیا ہے کہ مقدس مقامات پر درجہ حرارت 48 ڈگری تک پہنچ سکتا ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق وزارتِ صحت نے ہفتے کو عرفات پہنچنے والے حاجیوں کو بھی 11 سے چار بجے کے دوران دھوپ کی شدت سے خبردار کیا اور ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔
کرونا وائرس کے وبائی مرض کی وجہ سے تین سال کی سخت پابندیوں کے بعد سالانہ حج حالیہ برسوں میں اب اپنے معمول پر واپس آ گیا ہے۔ گزشتہ سال 18 لاکھ سے زیادہ عازمین نے حج کیا تھا۔
کروبا وبا سے قبل ہونے والے 2019 کے حج میں 24 لاکھ سے زیادہ عازمین سعودی عرب پہنچے تھے۔
اس خبر میں شامل کچھ معلومات خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ سے لی گئی ہیں۔