UNRWA اسرائیل کے دباؤ اور فنڈز منجمد ہونے سےبریکنگ پوائنٹ پر پہنچ گیا ہے: ادارے کے سربراہ کا جنرل اسمبلی کے سربراہ کو خط
- امریکہ سمیت 16 عطیہ دہندگان کی 45 کروڑ ڈالر کی مالی امداد معطل
|
اقوام متحدہ کے فلسطینی مہاجرین کی معاونت سے متعلق ادارے UNRWA کے سربراہ نے جمعرات کے روز خبردار کیا کہ اس کے لیے لاکھوں فلسطینیوں کی معاونت انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔
ادارے کے سربراہ کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کو ایک خط میں کہا کہ، “یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ مجھے اب آپ کو یہ بتانا ضروری ہو گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے ادارے کو ختم کرنے کے بار بار کے مطالبوں، اور ایک ایسے وقت میں جب غزہ میں انسانی ہمدردی کی غیر معمولی ضروریات ہیں، عطیات دہندگان کے فنڈز کو منجمد کیے جانے کے نتیجے میں UNRWA ایک بریکنگ پوائنٹ تک پہنچ گیا ہے ۔ “
انہوں نے کہا کہ “نئی فنڈنگ کے بغیر، خطے بھر میں ادارے کی مارچ میں شروع ہونے والی امدادی کارروائیاں سخت خطرے میں پڑ جائیں گی ۔”
UNRWA کا مقصد اور دائرہ کار
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی، UNRWA کو 1949 میں قائم کیا تھا تاکہ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے تقریباً 7 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کی جا سکے۔ عرب اسرائیل جنگ مئی 1948 میں اس کے بعد شروع ہوئی تھی جب اسرائیل ایک ریاست بن گیا تھا۔
آج، یہ ادارہ نہ صرف غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے، بلکہ اردن، لبنان اور شام میں بھی کام کرتا ہے، جہاں بڑی تعداد میں فلسطینی مہاجرین موجود ہیں۔ تقریباً ساٹھ لاکھ فلسطینی UNRWA کی خدمات کے دائرے میں آتے ہیں، جن میں تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال شامل ہے۔
UNRWA کا اب تک کا سب سے بڑا مالی بحران
UNRWA کو پہلے بھی شدید مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ماہ لازارینی کو معلومات پیش کرنے کے بعد یہ الزام لگایا گیا تھا کہ UNRWA کے عملے کے بارہ ارکان اسرائیل کے اندر 7 اکتوبر کو ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث تھے۔ جس کے بعد ایجنسی کو اپنے اب تک کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
عملے کے ان ارکان کو فوری طور پر برطرف کر دیا گیا، اور اندرونی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ لیکن ان حالات میں ادارے کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون کرنے والے ملک امریکہ سمیت 16 عطیہ دہندگان نے تقریباً 45 کروڑ ڈالر کی مالی امدادمعطل کر دی۔
ادارے کے خلاف تحقیقات
اقوام متحدہ نے UNRWA کے کام کرنے کے طریقوں کے ایک دوسرے غیر جانبدار جائزے کا حکم دے دیا ہے ۔ سابق فرانسیسی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا اس کی سربراہی کر رہی ہیں جو حتمی رپورٹ اپریل میں پیش کریں گی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ا ن کےکام پر گفتگو کے لیے جمعرات کو ملاقات کی۔
اسرائیلی عہدے داروں کے UNRWA پر الزامات
اسرائیلی عہدے دار ایک عرصے سے UNRWA پر یہ الزام لگاتے ہوئے تنقید کر چکے ہیں کہ حماس اس کے اسکولوں کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتی ہے اور وہ ایک اسرائیل مخالف نصاب کو فروغ دیتے ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد الزامات اور تنقید میں اضافہ ہو گیا ہے۔
جنوری میں یروشلم کے دورے پر آئے اقوام متحدہ کے ایلچیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ UNRWA مکمل طور پر حماس کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور اس کے مشن کو ختم ہونا چاہیے ۔
منگل کے روز اقوام متحدہ کے لیے اسرائیل کے سفیر نے کوئی تفصیلات یا شواہد پیش کیے بغیر زور دے کر کہا کہ غزہ میں یو این آر ڈبلیو اے کے عملے کے 13ہزار ارکان میں سے بارہ فیصدحماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کے ارکان ہیں اور یہ کہ ان میں سے کم از کم 236 ان گروپوں کے مسلح ونگز میں سر گرم دہشت گرد ہیں۔
سفیر جیلاڈ ایرڈان نے سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں کہا کہ” غزہ میں حماس اقوام متحدہ ہے اور اقوام متحدہ حماس ہے ۔” انہوں نے کہا کہ “حماس کا غزہ میں UNRWA کے ہیڈ کوارٹرز کے نیچے ایک ڈیٹا سینٹر اور سرنگیں ہیں۔”
گزشتہ ہفتے اسرائیل کے وزیر خار جہ کاٹز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے حماس کے خاتمے کے بعد غزہ کے منظر نامے کا حصہ نہیں ہو سکتا۔
UNRWA کا رد عمل
UNRWA کے سربراہ کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کو ایک خط میں کہا کہ ادارے کے پاس کاؤنٹر انٹیلی جینس پولیس،یا فوجداری انصاف کی صلاحیتیں نہیں ہیں اور وہ اس کے لیے اور حتیٰ کہ حکومت کو اپنےعملے کی فہرست فراہم کرنے کے لیے بھی اسرائیل پر انحصار کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے UNRWA کی بندش کے مطالبے ادارے کی غیر جانبداری کے بارے میں نہیں بلکہ سیاسی ہیں.
لزارینی نے خط میں کہا کہ اس کی بجائے وہ ( مطالبے) جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں امن کے لیے متعین کیے گئے پرانے سیاسی ضابطے بھی تبدیل کرنے سے متعلق ہیں۔ وہ(اسرائی چاہتے ہیں کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے UNRWA کے کردار کو ختم کر دیا جائے اور وہ ان کی جاری حالت ذار کو بس چپ چاپ دیکھتا رہے۔
لزارینی نے UNRWA کے خلاف اسرائیل کی کچھ مہم کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے 26 جنوری کے عارضی اقدامات کے اس فیصلے سے منسلک کیا جس میں اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ غزہ میں نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرے ۔
ادارےکے خلاف مبینہ اسرائیلی اقدامات
UNRWA کے سربراہ کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا کہ آئی سی جے کے فیصلے کے بعد سے کچھ اسرائیلی عہدے داروں نے UNRWA کو حماس سے منسلک کرنے، UNRWA کی کارروائیوں میں خلل ڈالنے اور ادارے کو ختم کرنے کے مطالبے کے لیے ایک بھر پور کوشش کی ہے۔
کمشنر جنرل نے کہا اس کوشش میں یروشلم کے ڈپٹی مئیر کی جانب سے مشرقی یروشلم میں ادارے کو اس کے ہیڈکوارٹرز سے، جن پر اس کا 75 سال سے قبضہ ہے، نکالنے اور اسرائیلی پارلیمنٹ میں UNRWA کو اقوام متحدہ کی مراعات اور استثناؤں سے خارج کرنے کے لیے ایک بل پیش کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔
ان الزامات کے بارے میں اسرائیل کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے ۔
فلپ لازارینی نے کہا کہ بین الاقوامی عملے کے لیے ویزے صرف ایک یا دو مہینوں کے لیے محدود ہیں اور ایک اسرائیلی بینک نے UNRWA کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ گوتریس نے کہا ہے کہ UNRWA انتہائی اہم ادارہ ہے اور اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔
اس ماہ کے شروع میں انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایاتھا کہ غزہ میں ایسی کوئی اور آرگنائزیشن موجود نہیں ہے جو اس کی ٖضروریات پوری کر سکتی ہو۔ غزہ میں بھیجی جانے والی بیشتر امداد UNRWA کے توسط سے جاتی ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔