|
ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے بدھ کو کہا ہے کہ ایران “جنگ کرنا نہیں چاہتا” تاہم انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایرانی میزائل حملے پر اسرائیل کی کسی جوابی کارروائی کی صورت میں ایران سخت جواب دے گا۔
پیزشکیان نے قطر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “اگر وہ (اسرائیل) رد عمل ظاہر کرنا چاہتا ہے تو ہمارے پاس سخت جواب ہوگا، اسلامی جمہوریہ اس کے لیے پرعزم ہے”۔
پیزشکیان نے قطر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا: “ہم جنگ نہیں چاہتے، یہ اسرائیل ہے جو ہمیں ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔”
ایرانی صدر مسعود پیزشکیان دو طرفہ بات چیت اور ایک سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بدھ کے روز قطر پہنچے ہیں جس کے بارے انھوں نے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں “اسرائیلی جرائم” کو روکنے کے لیے ایشیائی ممالک کی مدد لینے کی امید رکھتے ہیں۔
پیزشکیان نے اس سے قبل ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ دوحہ میں پہلا مقصد دو طرفہ تعلقات پر بات چیت اور قطری حکومت کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ’ایشیا کوآپریشن ڈائیلاگ‘ کے سربراہی اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔
پیزشکیان نے کہا، “دوسرا مقصد یہ ہے کہ ایشیائی ممالک خطے میں اسرائیل کے جرائم کو کیسے روک سکتے ہیں۔۔۔ اور دشمنوں کو مشرق وسطیٰ میں ہنگامہ برپا کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں۔”
صدر کی حیثیت سے قطر کا اپنا پہلا دورہ شروع کرتے ہوئے پیزشکیان نے حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل پر اسرائیل پر تنقید کی۔ ایران نے 31 جولائی کو ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر لگایا ہے۔
اس کے بعد ایک اہم پیش رفت میں اسرائیل نے لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ کے رہنما حسن نصر اللہ کو ہلاک کیا ہے اور جنوبی لبنان میں زمینی فوج بھیجی ہے جسے اس نے محدود آپریشن کہا ہے۔
ایران نے بقول اس کے اسرائیلی کارروائیوں کے جواب منگل کو اسرائیل پر تقریبأ 200 میزائل فائر کیے۔
ایران کی اس کارروائی کی امریکہ سمیت متعدد ملکوں نے مذمت کی ہے۔
ایران کے اسٹوڈنٹ نیوز نیٹ ورک کے مطابق قطر پہنچنے پر پیزشکیان نے کہا کہ “ہم بھی سلامتی اور امن چاہتے ہیں۔ یہ اسرائیل ہی تھا جس نے تہران میں ہنیہ کو قتل کیا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ یورپ اور امریکہ نے کہا کہ اگر ہم نے کارروائی نہیں کی تو ایک ہفتے میں غزہ میں امن ہو جائے گا۔ ہم نے ان کے امن کا انتظار کیا لیکن ہلاکتوں میں اضافہ ہوگیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے، جن کے ملک کو غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ دونوں کے خلاف تنازعات کا سامنا ہے، کہا ہے کہ اسرائیل ایران کے میزائل حملے کا جواب دے گا۔
اسرائیل حماس جنگ کا آغاز ایک سال قبل 7 اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی حصے پر عسکری گروپ حماس کے ایک بڑے اور اچانک حملے کے بعد ہوا تھا جس میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں عام شہری بھی شامل تھے اور تقریباً ڈھائی سو کو یرغمال بنا لیا گیا تھا جن میں سے 100 کے قریب عسکریت پسندوں کی قید میں ہیں۔ اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ ان میں سے 65 یرغمال زندہ ہیں۔
اسرائیلی فوج کی فضائی اور زمینی کارروائیوں میں اب تک 41000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 17000 جنگجو بھی تھے، تاہم اس نے اپنے اس دعویٰ کے ثبوت نہیں دیے۔
غزہ اور ملحقہ شہروں اور قصبوں کی زیادہ تر عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ 23 لاکھ آبادی میں سے نصف سے زیادہ بے گھر ہو گئے اور پناہ اور خوراک کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود علاقے میں لڑائی جاری ہے۔
قطر غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر کام کرنے والے ثالثوں میں سے ایک ہے، اگرچہ اس وقت بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
یہ رپورٹ رائٹرز کی معلومات پر مبنی ہے۔