Thursday, December 26, 2024
ہومWorldمادری زبانوں کا عالمی دن: 'دنیا کی 40 فی صد آبادی کو...

مادری زبانوں کا عالمی دن: ‘دنیا کی 40 فی صد آبادی کو اپنی زبان میں تعلیم تک رسائی نہیں’



اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کا کہنا ہے کہ دنیا کی 40 فی صد آبادی کو اپنی مادری زبان میں تعلیم تک رسائی حاصل نہیں اور بعض خطوں میں یہ شرح دگنی ہے۔

ہر سال 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقعے پر یونیسکو کا کہنا ہے کہ مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے حامل معاشرے اپنے لسانی ورثے کو محفوظ کر کے ہی برقرار رہ سکتے ہیں۔

تاہم یونیسکو نے مادری زبانوں کے دن سے متعلق اپنے پیغام میں کہا ہے کہ دنیا میں زبانوں کے خاتمے کے باعث ثقافتی تنوع خطرے میں ہے۔

عالمی ادارے کے مطابق اس وقت دنیا کی 40 فی صد آبادی کو اپنی مادری زبان میں تعلیم تک رسائی حاصل نہیں جب کہ کئی خطوں میں یہ شرح 90 فی صد تک بھی پہنچ چکی ہے۔

تحقیق سے مادری زبان میں تعلیم کی افادیت ثابت ہو چکی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم سے بچوں میں خود اعتمادی اور تخلیقی انداز میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔

تاہم دوسری جانب مقامی زبانوں کا وجود شدید خطرے میں ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی لگ بھگ سات ہزار مقامی زبانوں میں سے ہر دو ہفتے میں ایک زبان ختم ہو رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی زبان محض رابطے کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ اس میں پائے جانے والے منفرد آئیڈیاز، تصورات اور چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے مختلف انداز بھی پائے جاتے ہیں۔

اس لیے عین ممکن ہے کہ کسی بات کے اظہار کے لیے کسی ایک زبان میں پایا جانے والا انداز کسی دوسری زبان میں بالکل ملتے جلتے انداز میں سرے سے موجود ہی نہ ہو۔

اس لیے ماہرینِ لسانیات کا کہنا ہے کہ کسی زبان کے ختم ہونے سے انسانوں کے سوچنے سمجھنے کے ایک بڑے ذریعے کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔

بعض ماہرین زبانوں کی حفاظت کے لیے ان کی ڈیجیٹائزیشن اور اے آئی جیسے ٹولز کو بھی کار آمد قرار دیتے ہیں۔

تاہم اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کی لگ بھگ سات ہزار زبانوں میں سے صرف ایک ہزار تاحال ڈیجٹائز ہو چکی ہیں جب کہ دیگر زبانوں کو ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ کرنے کے لیے کوششوں کی ضرورت ہے۔

یونیسکو نے نومبر 2002 میں بنگلہ دیش کی تجویز پر 21 فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کی مںظوری دی تھی۔ یہ دن 21 فروری 1952 کو ڈھاکہ میں بنگالی کو سرکاری زبان کی حیثیت دلانے کے لیے احتجاج میں طلبہ کی ہلاکتوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

اُس وقت کے مغربی پاکستان نے بنگالی کو پاکستان کی سرکاری زبان تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اردو کو پورے پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا تھا جس میں اس وقت کا مشرقی پاکستان بھی شامل تھا۔

اردو زبان کو پورے ملک کی سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کے خلاف مشرقی پاکستان میں سخت احتجاج کیا گیا تھا کیوں کہ اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کی زبان بنگلہ تھی۔

مورخین کے مطابق زبان کی اس تحریک سے بنگلہ دیش کو ایک علیحدہ اور آزاد ملک بنانے کی جدو جہد کا آغاز ہوا۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں