Friday, December 27, 2024
ہومWorldمغرب عالمی تصادم کو ہوا دے رہا ہے: روسی صدر پوٹن

مغرب عالمی تصادم کو ہوا دے رہا ہے: روسی صدر پوٹن



  • دوسری عالمی جنگ میں جرمنی پر سوویت یونین کی فتح کی یاد میں پریڈ منعقد کی گئی
  • پوٹن نے خبردار کیا ہے کہ مغربی ممالک دنیا کی سب سے بڑی جوہری طاقت کو دھمکا نہیں سکتے
  • امریکہ کی جانب سے یوکرین کے لیے 61 ارب ڈالر امداد کی مںظوری کے بعد روسی صدر کے بیانات میں شدت آگئی ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایک عالمی تنازع کو ہوا دے رہے ہیں اور خبردار کیا ہے کہ کسی کو دنیا کی سب سے بڑی جوہری طاقت روس کو دھمکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

جمعرات کو صدر ولادیمیر پوٹن نے دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کے خلاف اس وقت کی سوویت یونین کی کامیابی کی یاد منانے کے موقعے پر ایک بار پھر مغربی ممالک کو کسی ممکنہ تصادم کے بارے میں دھمکی دی ہے۔

اس سے قبل بھی صدر پوٹن نے یوکرین کے اندر برطانیہ کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔

ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں دوسری عالمی جنگ کی فتح کی یاد میں ہونے والی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے پوٹن کا کہنا تھا کہ ہم مغرب کے ارادوں سے واقف ہیں اور روس کسی عالمی تصادم کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔

ان کا کہنا تھا: ’’تاہم اس کے ساتھ ہی ہم کسی کو ہمیں دھمکانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہماری افواج ہر دم جنگ کے لیے تیار رہتی ہیں۔‘‘

سال 2022 میں پوٹن نے یوکرین پر حملہ کیا تھا اور وہ اسے مغرب کے خلاف روس کو اپنے پیروں پر کھڑا کرے کی جدوجہد کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق 1989 میں دیوارِ برلن گرنے کے بعد مغربی ممالک نے روس کی تضیحک کی تھی اور یورپ میں اس کے دائرۂ اثر کو محدود کردیا تھا۔

مغربی اتحادیوں کا مؤقف ہے کہ روس استعماری انداز میں یوکرین کے علاقوں پر قبضے کر رہا ہے۔ اسی لیے انہوں نے روس کو شکست دینے کا تہیہ کیا ہے جو اس وقت کرائمیا اور مشرقی یوکرین سمیت یوکرین کے 18 فی صد علاقے پر قابض ہے۔

روس کا کہنا ہے کہ یہ علاقے پہلے روسی سلطنت کا حصہ تھے جنھیں وہ دوبارہ اپنی حدود میں شامل کر رہا ہے۔

جنگ سے جنگ تک

دوسری عالمی جنگ کے دوران سوویت یونین کے دو کروڑ 70 لاکھ افراد کی جانیں گئی تھیں۔ ان میں 10 لاکھ کا تعلق یوکرین سے تھا تاہم جنگ کی کایا پلٹنے کے بعد سوویت یونین نے نازی افواج کو برلن تک دھکیل دیا۔ ہٹلر کی خود کشی کے بعد جنگ کا خاتمہ ہو گیا اور 1945 میں سوویت یونین نے برلن میں اپنا پرچم لہرا دیا تھا۔

پوٹن کا کہنا تھا کہ مغرب میں لوگ دوسری عالمی جنگ کا سبق بھول گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ روس نازی جرمنی کو شکست دینے والے تمام اتحادیوں کا احترام کرتا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر جاپان کے جارحانہ عزائم کے خلاف ساتھ دینے پر چین کا شکریہ ادا کیا۔

نازی جرمنی نے آٹھ مئی 1945 کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس دن کو فرانس، برطانیہ اور امریکہ ’یورپ میں فتح‘ کے عنوان سے مناتے ہیں۔

ماسکو میں اس دن نو مئی کی تاریخ شروع ہو چکی تھی اس لیے وہاں اسی روز ’یومِ فتح‘ منایا جاتا ہے۔ روس میں 1941 سے 1945 تک جاری رہنے والی اس جنگ کو ‘گریٹ پیٹراٹک وار’ کہا جاتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں اس روز ہونے والی پریڈ میں بڑے پیمانے پر اسلحے کی نمائش ہوتی تھی۔ تاہم اس بار یوکرین جنگ کے باعث روس پر پڑنے والے دباؤ کی جھلک اس پریڈ میں بھی نظر آئی۔

پریڈ میں صرف ایک ٹی 34 ٹینک نے حصہ لیا اور جنگی طیاروں نے فضا میں روسی پرچم کے رنگ کا دھواں چھوڑا۔

اس پریڈ میں مغربی ممالک میں سے کسی کے رہنما نے شرکت نہیں کی۔ البتہ بیلاروس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، کیوبا، لاؤس اور گونیا بساؤ کے عہدے داران نے شرکت کی۔

روسی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ پوٹن مسلسل اس جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کا انتباہ کر رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی جانب سے یوکرین کو 61 ارب ڈالر کی فوجی امداد دینے کی منظوری کے بعد سے گزشتہ ہفتوں کے دوران یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والے تنازع میں مزید شدت آئی ہے۔

برطانیہ نے حال میں کہا ہے کہ یوکرین روس پر برطانوی ہتھیاروں سے جوہری حملہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اسی طرح فرانس کے صدر ایمانول میخواں نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ فرانسیسی فوج کا یوکرین کے ساتھ مل کر روس کے خلاف لڑنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

روس نے پیر کو ان بیانات کے جواب میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو خبردار کرنے کے لیے ٹیکٹیکل نیوکلیئر مشقوں کا آغاز کردیا تھا۔

ماسکو کے مطابق یہ مشقیں “روسی فیڈریشن کے بارے میں فرانس، برطانیہ اور امریکہ کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں” کے جواب میں ہے۔

روسی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں انتباہ کیا تھا کہ یوکرین کی جنگ پر مغرب کے ساتھ روس کی کشیدگی گہری ہوتی جا رہی ہے۔

اس خبر کے لیے مواد ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں