– “یہ دعویٰ کہ ہم نے اپنی شرائط پوری کیے بغیر جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، غلط ہے۔” – نیتن یاہو کو غزہ اور حماس کے لیے اسرائیل کے منصوبے پر دائیں بازو کی مخلوط حکومت اور اپنے ملک میں مخالف فریقوں کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ – امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اگر فلسطینی عسکری تنظیم حماس مجوزہ جنگ بندی پر راضی ہوتی ہے تو اسرائیل بھی اسے قبول کرلے گا۔ |
اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے غزہ جنگ کو روکنے اور عسکریت پسندوں کے زیرِ قبضہ یرغمالوں کی رہائی کے لیے تجویز کردہ معاہدہ ایک جزوی خاکہ ہے۔
نیتن یاہو نے طویل عرصے سے غزہ میں حماس کے خاتمے زور دیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا، “یہ دعویٰ کہ ہم نے اپنی شرائط پوری کیے بغیر جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، غلط ہے۔”
صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے غزہ میں جنگ بندی کے ایک نئے معاہدے کا خاکہ پیش کیا تھا جس میں لڑائی میں وقفہ اور حماس کے ہاتھوں کچھ یرغمالوں کی رہائی شامل تھی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اگر فلسطینی عسکری تنظیم حماس مجوزہ جنگ بندی پر راضی ہوتی ہے تو اسرائیل بھی اسے قبول کرلے گا۔ تاہم اسرائیلی حکام نے جنگ بندی کی تجویز کی تفصیلات پر سوال اٹھایا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ “یرغمالوں کی واپسی کے مقصد سے جنگ روک دی جائے گی” جس کے بعد حماس کو ختم کرنے کے جنگ کے ہدف کو حاصل کرنے کے بارے میں بات چیت کی جائے گی۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اسرائیلی حکام کے ساتھ اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ محکمہ خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے طویل مدتی سلامتی کے مفادات کو آگے بڑھائے گا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے مطابق بلنکن نے اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور کابینہ کے وزیر بینی گینٹز کے ساتھ الگ الگ ٹیلی فون پر گفتگو کی اور انہیں بتایا کہ جنگ بندی کی تجویز “تمام یرغمالوں کی رہائی کو یقینی بنائے گی اور پورے غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ کرے گی۔”
ملر نے گینٹز کے ساتھ بلنکن کی کال کے بارے میں کہا کہ وزیر خارجہ نے اس تجویز کے لیے اسرائیل کی تعریف کی اور اس بات پر زور دیا کہ حماس کو بلا تاخیر معاہدہ کرنا چاہیے۔
اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کہا کہ امن کی تجویز “اسرائیل کی لبنان کے ساتھ سرحد کے ساتھ پرسکون ہونے کے امکان کو بھی کھول سکتی ہے جو اسرائیلیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گی۔
نیتن یاہو کو غزہ اور حماس کے لیے اسرائیل کے منصوبے پر دائیں بازو کی مخلوط حکومت اور اپنے ملک میں مخالف فریقوں کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
ان کی کابینہ کے دو دائیں بازو کے ارکان، قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر اور وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے ہفتے کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ بائیڈن کی تجویز سے اتفاق کرتے ہیں تو نیتن یاہو کی حکومت کو گرا دیں گے۔
صدر بائیڈن نے آٹھ ماہ سے جاری تنازع میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کی تجویز دیتے ہوئے جمعہ کو کہا تھا کہ امن معاہدے میں ابتدائی چھ ہفتوں کی جنگ بندی شامل ہوگی جس میں جزوی اسرائیلی فوجی انخلاء ہوگا۔ تجویز کے تحت کچھ یرغمالیوں کی رہائی ہوگی جب کہ ثالثوں کے ذریعے “دشمنی کے مستقل خاتمے” پر بات چیت کی جائے گی۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جب کہ مذاکرات کے ثالث امریکہ، قطر اور مصر فریقین کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی کئی کوششیں کر چکے ہیں۔
غزہ جنگ کو لگ بھگ آٹھ ماہ ہو گئے ہیں جس کے دوران غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 35 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
غزہ جنگ کا آغاز گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 253 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔