ڈھاکہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) نیشنل پریس کلب ڈھاکہ میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی 148 ویں سالگرہ منائی گئی۔ تقریب کے مقررین نے اظہار خیال کیا کہ گزشتہ 15 سالوں سے بنگلہ دیش میں محمد علی جناح کا نام لینا غیر رسمی طور پر ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قائد اعظم کے وژن کی بدولت ہی آج بنگلہ دیش موجود ہے۔
ڈھاکہ ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق نیشنل پریس کلب کے مولانا محمد اکرم خان ہال میں “قائد اعظم محمد علی جناح کی 148 ویں سالگرہ” کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کا اہتمام نواب سلیم اللہ اکیڈمی نے کیا تھا، جہاں مقررین نے “جناح کے ورثے” پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
سٹیزنز کونسل کے کنوینر محمد شمس الدین نے کہا “1947 میں ہم پہلے مسلم اکثریتی ملک کے طور پر آزاد ہوئے۔ قائد اعظم کی بدولت ہی آج ہمارے پاس بنگلہ دیش ہے۔ اگر 1947 کے واقعات رونما نہ ہوتے تو اس خطے میں کوئی صنعتی ترقی نہ ہوتی۔” انہوں نے مزید کہا “آپریشن سرچ لائٹ سے پہلے بھارت نے بنگلہ دیش میں اردو بولنے والی کمیونٹی پر حملے شروع کر دیے تھے جس کا مقصد انہیں ختم کرنا اور اس طرح ملک پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ ہم اردو بولنے والی کمیونٹی کے ان آباؤ اجداد کے مقروض ہیں جنہوں نے اس سرزمین پر صنعتوں اور کارخانوں کے قیام میں حصہ ڈالا۔”
کونسل فار پیپلز رائٹس کے ایک دھڑے کے ممبر سیکریٹری فاروق حسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا “گزشتہ 15 سالوں میں عوامی لیگ نے یہ بیانیہ پھیلایا ہے کہ بھارت کے بغیر بنگلہ دیش آزادی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ بھارت کا واحد مقصد بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کرنا تھا۔ گزشتہ 15 سالوں سے بنگلہ دیش میں جناح کا نام لینا غیر رسمی طور پر ممنوع قرار دیا گیا ۔ ان کا نام لینے سے قانونی نتائج بھگتنا پڑ سکتے یا اسے ایک سنگین جرم قرار دیا جا سکتا تھا۔ یہ ماحول عوامی لیگ نے پیدا کیا تھا، جو اہم تاریخی شخصیات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، اس خوف سے کہ کہیں اس سے ان کے نام نہاد ‘بابائے قوم’ کی اہمیت کم نہ ہو جائے۔”
بنگلہ دیش کی انڈین اوریجن اردو سپیکنگ مائنارٹی کونسل کے سیکریٹری جنرل افضل وارثی نے کہا ” شیخ مجیب الرحمان نے بھی کبھی قائد اعظم پر تنقید نہیں کی، بھارت کے اقدامات کی وجہ سے ہم دو قوموں میں بٹ گئے۔ ان کی وجہ سے دو برادر ممالک، بنگلہ دیش اور پاکستان تنازع میں الجھ گئے۔ اس عمل میں مسلمانوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ بالآخر، ہم بھارت کے ماتحت ہو گئے۔ ہم نے کیا حاصل کیا؟”
نیشنل انڈیپینڈنس پارٹی کے چیئرمین معزز حسین خان مجلس نے کہا، “قرارداد لاہور کے نفاذ نے براہ راست بنگلہ دیش کی تخلیق کی راہ ہموار کی۔” انہوں نے تجویز پیش کی “میرا خیال ہے کہ ہمیں ‘بابائے قوم’ کے لقب پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اس کی بجائے ‘فاؤنڈنگ فادر’ استعمال کرنا چاہیے۔ نواب سلیم اللہ، شیر بنگال اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی اور مولانا عبدالحمید خان بھاشانی جیسی شخصیات کو اس برصغیر میں مسلم آزادی کے علمبردار کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔”
تقریب کے دیگر مقررین نے محمد علی جناح کی زندگی کے اہم لمحات کو ان کی پیدائش سے لے کر ان کی وفات تک اجاگر کیا۔ اس سے قبل 11 ستمبر کو نواب سلیم اللہ اکیڈمی نے نیشنل پریس کلب کے طفزل حسین مانک میاں ہال میں محمد علی جناح کی 76 ویں برسی کے موقع پر ایک مباحثے کا پروگرام بھی منعقد کیا تھا۔