Wednesday, December 25, 2024
ہومWorldٹرمپ کا پانامہ کینال واپس لینے کا بیان؛ امریکہ کے لیے یہ...

ٹرمپ کا پانامہ کینال واپس لینے کا بیان؛ امریکہ کے لیے یہ بحری راستہ کیوں اہم ہے؟


  • پانامہ کینال بحرِ اوقیانوس (اٹلانٹک) اور بحرِ الکاہل (پیسیفک) کو ملانے کے لیے بنایا گیا بحری راستہ ہے
  • اس کینال کی وجہ سے شمالی امریکہ سے جانے اور آنے والے بحری جہازوں کا سفر ہزاروں کلومیٹر کم ہوجاتا ہے
  • دنیا کا پانچ فیصد کارگو اس کینال سے گزرتا ہے اور یہاں سے گزر کر جانے والے جہاز 170 ممالک کی 1900 بندرگاہوں تک پہنچتے ہیں
  • امریکہ نے 1977 میں اس کینال کا کنٹرول پانامہ کے سپرد کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس پر 1999 میں عمل درآمد ہوا
  • اس کینال کی تعمیر کے لیے امریکہ نے پانامہ کو کولمبیا سے آزادی میں مدد دی تھی
  • امریکہ اس بحری راستے کا سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے
  • نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں پانامہ حکومت کی جانب سے کینال سے گزرنے کی فیس پر اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے
  • ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر فیس میں اضافہ واپس نہیں لیا گیا تو امریکہ کینال کا کنٹرول پانامہ سے واپس لے سکتا ہے

ویب ڈیسک __امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانامہ کینال کا کنٹرول حاصل کرنے کے بیان کی وجہ سے یہ اہم تجارتی گزر گاہ ایک بار پھر دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔

پانامہ کینال بحرِ اوقیانوس (اٹلانٹک) اور بحر الکاہل (پیسیفک) کو ملانے کے لیے بنایا گیا راستہ ہے جس کا کنٹرول وسطی اور جنوبی امریکہ کے سنگم پر واقع ملک پانامہ کے پاس ہے اور وہ یہاں سے گزرنے والے جہازوں سے اس گزرگاہ کی فیس وصول کرتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پانامہ نے اگر اس راستے کے استعمال پر عائد فیس میں کیا گیا اضافہ ختم نہیں کیا تو وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اس کینال کا کنٹرول فوری اور غیر مشروط طور پر واپس لینے کا مطالبہ کریں گے۔

امریکہ نے 1977 میں اس کینال کا کنٹرول پانامہ کے سپرد کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس پر 1999 میں عمل درآمد ہوا۔ یہ معاہدہ تھا کیا اور امریکہ کیوں پانامہ کینال سے دستبردار ہوا، اس کا پس منظر جاننے کے لیے اس کینال کی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔

پانامہ کینال کیا ہے؟

یہ انسانوں کا بنایا ہوا 82 کلومیٹر طویل بحری راستہ ہے جو کئی دروازوں اور آبی ذخائر کے ذریعے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ اس نہر یا کینال کو بنانے کا مقصد بحرِ اوقیانوس اور بحر الکاہل کو ملانا تھا۔

اس کینال کی وجہ سے شمالی امریکہ سے بحرِ اوقیانوس کی طرف جانے والے یا آنے والے بحری جہازوں کا سفر تقریباً 11 ہزار کلومیٹر تک کم ہوجاتا ہے۔ اس سے قبل ان جہازوں کو جنوبی امریکہ کے آخری کنارے پر واقع کیپ ہورن سے مڑنا پڑتا تھا۔

اس کے علاوہ یہ کینال امریکہ کے مشرقی اور اور مغربی کناروں کے درمیان بحری فاصلہ بھی بہت کم کر دیتی ہے۔ اس کینال کی وجہ سے نیویارک اور سان فرانسسکو کی بندرگاہوں کا درمیان فاصلہ 20 ہزار کلومیٹر تک کم ہوجاتا ہے۔

اس کینال پر پانامہ کا کنٹرول ہے جس کے آئین میں اس کینال کو ’قومی ورثہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس کینال کی نگرانی ایک خود مختار سرکاری ادارہ ’پانامہ کینال اتھارٹی‘ کے پاس ہے۔

امریکہ اس بحری راستے کا سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے اور یہاں سے گزرنے والے جہازوں میں سے 74 فی صد امریکہ کے ہوتے ہیں۔ اس کینال کا استعمال کرنے والا دوسرا بڑا ملک چین ہے جس کا اس کینال کے ٹریفک میں شیئر 21 فی صد ہے۔

یو ایس انٹرنیشنل ٹریڈ ایڈمنسٹریشن کے مطابق پانامہ کینال امریکہ کے کاروباری مفادات کے لیے انتہائی اہم ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے وقت اور ایندھن کی غیر معمولی بچت ہوتی ہے۔

خاص طور پر اس کینال کے استعمال سے ایسی مصنوعات کی بروقت ترسیل ممکن ہوتی ہے جو جلد خراب ہوسکتی ہیں اور انہیں محفوظ اور قابلِ استعمال رکھنے کے لیے ان کی ٹرانسپورٹیشن میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہوتی۔

پانامہ کی حکومت اس راستے سے گزرنے کے لیے فیس یا ٹول کا تعین کرتی ہے۔ اس فیس کا تعین کینال کے لیے مطلوبہ وسائل اور بین الاقوامی طلب کے اعتبار سے کیا جاتا ہے۔ کسی بحری جہاز سے اس کی کارگو لے جانے کی گنجائش کے اعتبار سے چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔

پانامہ کینال کیسے تعمیر ہوئی؟

پانامہ سے گزرنے والی یہ نہر یا کینال بنانے کا منصوبہ فرڈیننڈ ڈی لیسیپ نامی فرانسیسی سفارت کار کی سربراہی میں 1880 میں شروع ہوا تھا۔ فرڈیننڈ اس سے قبل نہرِ سوئز کی تعمیر کا منصوبہ بھی مکمل کرچکے تھے۔

نو برس تک پانامہ کینال پر تعمیراتی کام میں معمولی پیش رفت کے بعد اس کے لیے مطلوبہ وسائل دستیاب نہیں رہے۔

منصوبے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ اس علاقے کے سخت ترین حالات بھی تھے جہاں کینال کی تعمیر کی جارہی تھی۔ گھنے جنگلات اور مرطوب آب و ہوا کی وجہ سے ملیریا سمیت کئی دیگر بیماروں نے کینال پر کام کرنے والے مزدوروں کو آ لیا اور ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار سے زیادہ جانیں گئیں۔

پانامہ اس وقت تک کولمبیا کا ایک صوبہ تھا۔ امریکہ اس کینال کی تعمیر میں دلچپسی رکھتا تھا لیکن کولمبیا اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اسی لیے امریکہ نے کولمبیا سے علیحدگی میں پانامہ کی مدد کی اور صدر تھیوڈر روزویلٹ نے اس کے لیے جنگی بحری بیٹرے بھی روانہ کیے۔

امریکہ نے پانامہ کی آزادی سے قبل اس کا آئین بھی تحریر کرلیا تھا جس میں امریکی فورسز کے لیے “پانامہ کے کسی بھی حصے میں قیامِ امن اور آئینی نظم و نسق قائم کرنے کے لیے مداخلت” کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔

کولمبیا کی فوج کے لیے سخت موسمی حالات اور جنگلات کی وجہ سے پانامہ میں علیحدگی کے مطالبات کو دبانا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے نومبر 1903 میں بغیر کسی خون خرابے کے پانامہ ایک آزاد ملک بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے اس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت پانامہ کینال بنانے کا کام شروع کر دیا۔

اس منصوبے پر 10 سال لگے اور 38 کروڑ ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ کے تحت اس کینال کی تیاری میں 5600 مزدوروں کی جان گئی۔ کینال کا افتتاح 15 اگست 1914 کو ہوا۔

آج دنیا کا پانچ فیصد کارگو اس کینال سے گزرتا ہے اور یہاں سے گزر کر جانے والے جہاز 170 ممالک کی 1900 بندرگاہوں تک پہنچتے ہیں۔

اپنے افتتاح کے وقت کینال بہت چھوٹی تھی۔ تاہم توسیع کے بعد آج اس سے 1200 فٹ سے زائد لمبائی اور 161 فٹ سے زائد چوڑائی رکھنے والے جہاز بھی گزر سکتے ہیں۔ یہ حجم فٹ بال کے چار میدانوں جتنا بنتا ہے۔

پانامہ کی مجموعی قومی پیداوار کا چھ فی صد پانامہ کینال سے حاصل ہوتا ہے اور گزشتہ 24 برسوں میں اس آبی گزرگاہ سے پانامہ کے قومی خزانے کو 28 ارب ڈالر کی آمدن ہوئی ہے۔

گزشتہ مالی سال کے دوران پانامہ سے 11200 بحری جہاز گزرے جن پر 42 کروڑ ٹن سے زائد کارگو کی نقل و حرکت ہوئی۔

امریکہ کے پاس کنٹرول کیوں نہیں؟

پانامہ میں کینال کے افتتاح کے بعد اس پر امریکی کنٹرول سے متعلق سوال اٹھنے لگے اور اسے حکومتی تحویل میں لینے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

امریکہ نے پانامہ میں مداخلت کے حق کو 1930 کی دہائی میں منسوخ کردیا تھا۔ 1970 کی دہائی تک کینال کے انتظامی اخرجات بڑھنے شروع ہوگئے جس کے بعد کئی برس تک پانامہ اور امریکہ کے درمیان اس کی حوالگی کے لیے مذاکرات جاری رہے۔

مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد 1977 میں امریکہ کے صدر جمی کارٹر اور پانامہ کے قوم پرست لیڈر اومر تریہوز نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت 31 دسمبر 1999 تک کینال کا کنٹرول دوبارہ پانامہ کو دینا طے پایا۔

کنٹرول پانامہ کے پاس جانے کے بعد

کینال کا کنٹرول پانامہ کو ملنے کے بعد اس کے انتظامات امریکی دور کے مقابلے میں بہتر ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی پانامہ نے 1999 سے 2004 کے درمیان گزرگاہ کے استعمال پر عائد فیس میں 17 فی صد اضافہ کیا۔

سال 2006 میں ہونے والے ایک ریفرینڈم میں پانامہ کے ووٹرز نے حکومت کو بڑے اور ماڈرن کارگو جہازوں کے لیے کینال میں بڑی توسیع کا اختیار دے دیا۔ سال 2016 تک کینال کی توسیع کی گئی جس پر 5.2 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔

گزشتہ برس خشک سالی کے باعث کینال میں پانی کی سطح برقرار رکھنے کے لیے بنائے گئے آبی ذخائر کے دروازے متاثر ہوئے جس کی وجہ سے اس کی انتظامی لاگت بڑھ گئی اور اسی وجہ سے پانامہ نے جہازوں سے وصول کی جانے والی فیس میں اضافہ کردیا۔

اگرچہ پانامہ میں بارشوں کے معمول پر آجانے کے بعد اب یہ مسئلہ نہیں رہا لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ شپنگ کی بڑھتی ہوئی نئی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیس میں آئندہ بھی اضافہ کیا جائے گا۔

پانامہ کے صدر کا کہنا ہے کہ کینال کے استعمال کی فیس وصول کی جاتی ہے جس میں کسی کی خواہشات کے تحت تبدیلی نہیں ہوسکتی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معاملہ کیوں اٹھایا؟

نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینال کے استعمال کی فیس میں اضافے کو بلاجواز قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ پانامہ نے ہمارے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا ہے۔

انہوں نے 1977 میں کینال کو پانامہ کے حوالے کرنے کے فیصلے کو ’احمقانہ‘ قرار دیا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جس معاہدے کے تحت یہ کینال پانامہ کے حوالے کی گئی تھی اس میں اس کا کںٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردِ عمل میں اتوار کو پانامہ کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے کہا کہ اس کینال کا ایک ایک انچ ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا۔ دیگر کئی امور پر اختلاف کے باوجود پانامہ کی قوم اس معاملے پر متفق ہے۔

اس کے علاوہ پانامہ جنوبی امریکہ سے غیر قانونی امیگریشن روکنے میں امریکہ کا پارٹنر ہے جو ٹرمپ کی پالیستی ترجیحات میں سرِ فہرست ہے۔

اس تحریر کے لیے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس اور اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں