پاکستان میں آٹھ فروری کو ایک نئی حکومت کے چناؤ کے لیے قومی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں جب کہ 241 ملین آبادی پر مشتمل جوہری طور پر مسلح جنوبی ایشیا کے اس ملک کو متعدد بحران اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت کو کچھ چیلنجوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں ایسے چند چیلنجوں کا جائزہ لیا ہے جو نئی حکومت کو درپیش ہو سکتے ہیں۔
اقتصادی بحالی کے دشوار گزار راستے پر چلنا
پاکستان گزشتہ موسم گرما میں آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کے ذریعے ڈیفالٹ ہونے سے بال بال بچا تھا، لیکن یہ ضمانت مارچ میں ختم ہو جائے گی جس کے بعد عہدے داروں کا خیال ہے کہ ایک نئے توسیعی پروگرام کی ضرورت پڑے گی۔
نئی حکومت کے لیے، جوریکارڈ سطح کی مہنگائی اور سست شرح افزئش سے متاثرہ معیشت کو سنبھالے گی، یہ بات انتہائی اہم ہو گی کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے پروگرام پر بات چیت کرے، وہ بھی تیز رفتاری کے ساتھ۔۔
ایک نئے پروگرام کا مطلب یہ ہے کہ وہ بحالی کے ایک تنگ راستے پر چلنے کے لیے درکار اقدامات کے وعدے کرے۔ لیکن ان اقدامات کے نتیجے میں نئی حکومت کے لیے انتہائی مایوسی کی شکار آبادی کو ریلیف فراہم کرنے اور ان صنعتوں کے لیے پالیسی سازی کے اختیارات محدود ہو جائیں گے جو ترقی کے لیے حکومت کی مدد کی منتظر ہیں۔
سیاسی درجہ حرارت کوکم کرنا
پاکستان میں انتخابات سے قبل سے سیاسی کشیدگیاں عرج پر ہیں جن کی وجہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بقول ان کے اور ان کی پارٹی کےخلاف کریک ڈاؤن ہے۔
سابق وزیر اعظم اور سابق کرکٹ اسٹار اگست سے جیل میں ہیں جس پر ان کے لاکھوں حامی برہم ہیں۔ انہیں گزشتہ ہفتے تین مختلف مقدمات میں قید کی مختلف سزائیں سنائی گئی ہیں اور ان کے خلاف مزید کیس ابھی زیر التوا ہیں ۔ ان میں وہ کیس بھی شامل ہے جس میں ان پر فوجی تنصیبات پرحملوں کا حکم دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے، جس پر سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔
خان کو پاکستان میں مسلسل بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے خاص طور سے نوجوانوں میں۔ مسلسل کریک ڈاؤن اور ان کے جیل میں رہنے سے ایک ایسے وقت میں کشیدگیوں میں صرف اضافہ ہی ہو گا جب معیشت میں بہتری لانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی خاطر ملک میں استحکام کی ضرورت ہے۔
فوج کے ساتھ چلنا
پاکستان کی فوج نے طویل عرصے سے ملک پر اپنی گرفت بر قرار رکھی ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کا کردار اور بھی وسیع ہوا ہے۔ خان کا کہنا ہے کہ فوج نے اس وقت، جب وہ وزیر اعظم تھے، پالیسی فیصلو ں پر اختلافات کے بعد ان کےاور ان کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ۔ فوج اس کی تردید کرتی ہے۔
تب سے معاشی فیصلہ سازی میں فوج کے کردار کو ’اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل ‘نامی ایک اعلیٰ اختیاراتی ادارے میں اس کی نمائندگی کے ذریعے باقاعدہ شکل دی گئی ہے۔
کئی ریاستی اداروں میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس جنرلز اہم عہدوں پر تعینات ہیں۔نئی حکومت کو ملک کے طاقتور جرنیلوں کو خوش رکھنے اور اپنی پالیسیوں کو ترتیب دینے کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہو گی۔
ماضی میں منتخب حکومتوں کو فوجی مداخلت کے ذریعے معزول کیا گیا جن میں تین بغاوتیں یا جرنیلوں کی جانب سے بالواسطہ دباؤ شامل تھا ۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم نے اپنا پورا پانچ سالہ دور مکمل نہیں کیا ہے۔
بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی سے نمٹنا
پاکستان میں 2014 میں فوجی کارروائی میں بہت سے اعسکریت پسند گروپوں کے پڑوسی ملک افغانستان فرار کے بعد ایک عرصے تک سکون رہا لیکن گزشتہ 18 ماہ کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان میں 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد وہاں عسکری گروپ،خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (TTP) دوبارہ منظم ہوئے۔ وہ مبینہ طور پر ان جدید ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں جنہیں نیٹو کی قیادت والی فورسز افغانستان سے انخلا کے وقت اپنے پیچھے چھوڑ گئی تھیں۔
عسکریت پسندوں نے متعدد ہائی پروفائل حملے کیے ہیں اور وہ پاکستان کے اندر مضبوط ٹھکانوں پر واپس چلے گئے ہیں۔ لیکن اسلام آباد کے اپنے محدود مالی وسائل کی باعث ایک اور مسلسل فوجی آپریشن کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی صلاحیت محدود ہو چکی ہے۔
جنوب مغرب میں ایک قوم پرست بلوچ شورش زور پکڑ چکی ہے جو ملک کے ایک اہم اتحادی،چین کے مفادات کو بھی ہدف بناتی ہے۔ بیجنگ نے معدنیات سے مالا مال صوبے بلوچستان اور اسٹریٹجک بندرگاہ گوادر میں کانوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
تناؤوالی تین سرحدوں سے نمٹنا
ٹی ٹی پی کے حملے اسلام آباد اور طالبان کے درمیان، جن کے بارے میں پہلے سمجھاجاتا تھا کہ ان کے قریبی تعلقات ہیں، غیر معمولی تصادم کی وجہ بنے ہیں ۔ جیسا کہ اسلام آباد نے لاکھوں افغانوں کو ملک سے بے دخل کر دیا ہے، جن میں سے اکثر کئی عشروں سے پاکستان میں مقیم تھے۔
پاکستان اور ایران نے گزشتہ ماہ ایک دوسرے کی سرزمین پر مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر ایک دوسرے پر فضائی حملے کیے اگرچہ اب دونوں کے درمیان بظاہر تعلقات بحال دکھائی دیتے ہیں، تاہم اس واقعے نے پاکستان کے لیے اس کی مغربی سرحد پر سیکیورٹی سے متعلق ایک نئی پریشانی کا آغاز کر دیا ہے۔
اسی دوران اسلام آباد کی جانب سے نئی دہلی پر پاکستان کے اندرکرائے کے قاتلوں کے ذریعہ مہم چلانے کا الزام لگائے جانے کے بعد پاکستان کی مشرقی سرحد پر، پرانے دشمن بھارت کے ساتھ نئی کشیدگیوں نے جنم لیا ہے۔
بھارت میں بھی مئی تک انتخابات ہونے والے ہیں، اور بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کی بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں واپسی پاکستان کی نئی حکومت کے لیے معاملات کو مزید گھمبیر بنا سکتی ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔