ایکس ہر بندش کا مطلب یہ کہ جب ریاست کے پاس جب کوئی قابل بھروسا جوابی بیانیہ نہ ہو تو وہ پھر معلومات کو کنٹرول کرنے کے لیے ہیرا پھیری کا استعمال کرتی ہے۔
صحافیوں اور ماہرین تعلیم نے ایکس پر پابندی کے حکومتی اقدام کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پابندی کا مقصد پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر کامیابیوں کا راستہ روکنا ہے۔پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کا ملک گیر تعطل آج چوتھے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد ایک اہم سرکاری عہدیدار کی جانب سے انتخابی دھاندلی کا اعتراف کرنے پر اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مظاہروں کی کال دینے کے بعد سے حکام نے ایکس کی بندش جاری رکھی ہوئی ہے۔
بدعنوانی اور خفیہ سرکاری معلومات عام کرنے کے الزامات کے تحت جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو گزشتہ ماہ ہونے والے عام انتخابات سے قبل بڑے پیمانے پر حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم ان انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود پی ٹی آئی کو مبینہ طور پر ملکی طاقتور فوج کی حمایت یافتہ جماعتوں کے اتحاد کی حکومت میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔
پہلے ٹویٹر اور اب ایکس کے نام سے پہچانے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے تعطل کے خلاف صحافیوں اور ماہرین تعلیم کے ایک گروپ نے ملک میں مواصلات کے ریگولیٹری ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے خلاف سندھ ہارئی کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
درخواست گزاروں کے وکیل عبدالمعیز جعفری کا کہنا ہے، ”ایکس پاکستان میں تبصروں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے اور اگر آپ اسے بلاک کرتے ہیں تو آپ عوامی بحث ومباحثے کا گلا گھونٹ رہے ہیں، جو کہ غیر قانونی ہے۔‘‘ معیز جعفری کا کہنا تھا کہ ایکس کی بندش کا مقصد لوگوں کو بات کرنے سے نہیں بلکہ بات سننے سے روکنا ہے۔‘‘ پی ٹی اے نے عدالت میں اپنا جواب جمع کرانے کے لیے وقت مانگ رکھا ہے۔ حکومت نے ایکس کی بندش پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اے ایف پی کے مطابق ہفتے کے روز دارالحکومت اسلام آباد کے ساتھ ساتھ لاہور اور کراچی، جیسے بڑے شہروں میں بھی صارفین کی ایکس تک رسائی متاثر رہی۔
انٹرنیٹ مانیٹر کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے نیٹ بلاکس سے منسلک الپ ٹوکر نے کہا کہ ایکس تک رسائی بے قاعدگی کا شکار ہے اور اس کی مختصر وقفوں کے لیے کبھی کبھار دستیابی کا انحصار انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں پر منحصر ہے۔ یہ صورتحال صارفین کو ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کے استعمال پر مجبور کرتی ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ نے سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کے دن ملک بھر میں موبائل انٹرنیٹ خدمات منقطع کر دی تھیں۔ اس کے بعد ووٹنگ کے نتائج جاری کرنے میں ایک طویل تاخیر کی گئی، جس نے دھاندلی کے الزامات کو جنم دیا۔
پی ٹی آئی کو انتخابات سے پہلے ہی بھاری سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس جماعت کی ٹیلی ویژن چینلز پر تشہیری مہم اور انتخابی ریلیاں نکالنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی آن لائن مہم چلانے پر مجبورہو گئی تھی۔ پھر اس کے بعد انٹرنیٹ سنسر شپ کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے بائٹس فار آل نے جنوری میں الگ الگ موقعوں پر چار مرتبہ گھنٹوں طویل سوشل میڈیا شٹ ڈاؤن ریکارڈ کیا ۔
اس دوران پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے حامیوں کے لیے شروع کی گئی لائیواسٹریمنگ کے خاتمے کے لیے ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب تک رسائی کو منقطع کر دیا گیا۔ بائٹ فار آل کے مطابق، ” اس سب کچھ کا آغاز ایک سیاسی جماعت کی قبل از انتخابات آن لائن مہم کو نشانہ بنانے کے ساتھ ہوا، تاہم الیکشن کے بعد یہ تمام شہریوں اور جمہوری اداروں خاص طور پر پارلیمنٹ اور عدلیہ کا زیادہ امتحان ہے کہ وہ ایکس کی بندش پر کس ردعمل کا اظہار کرتے ہیں؟‘‘
ایکس کی بندش کے خلاف درخواست گزاروں میں شامل سینٹر فار ایکسی لینس ان جرنلزم کی ڈائریکٹر امبر رحیم شمسی کے خیال میں،”یہ پابندیاں ریاست کی طرف سے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا کی کامیابی کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ ریاست کے پاس جب کوئی قابل بھروسا جوابی بیانیہ نہ ہو تو وہ پھر معلومات کو کنٹرول کرنے کے لیے ہیرا پھیری کا استعمال کرتی ہے۔‘‘
;