سابق جرمن چانسلر نے کہا کہ کشیدگی میں اضافے کا سبب بننے والے ایسے منظرناموں سے بچنے اور خوف کو کم کرنے کے لیے پرامن حل پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔
سابق جرمن چانسلر گیرہارڈ شروئڈر کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ان کی دوستی یوکرین جنگ ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے پوتن کی طرف سے مبینہ ایٹمی حملے کے امکان کو بھی بکواس قرار دیا۔جرمنی کے سابق چانسلر گیرہارڈ شروئڈر نے جمعرات کے روز شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ مذاکرات ہی یوکرین کی جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ ہو سکتا ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ”ہم نے کئی برسوں تک ایک ساتھ مل کر بڑی سمجھداری کے ساتھ کام کیا ہے۔ شاید یہی چیز اب بھی ہمیں گفت و شنید کے ذریعے حل تلاش کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔ مجھے اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل بھی نظر نہیں آتا ہے۔” سابق جرمن چانسلر نے پوتن کی جانب سے جوہری حملہ کرنے یا روس کی مشرقی سرحد کے نیٹو ملک پر حملہ کرنے سے متعلق ممکنہ قیاس آرائیوں کو ”بکواس” قرار دیا۔
شروئڈر نے کہا کہ کشیدگی میں اضافے کا سبب بننے والے ایسے منظرناموں سے بچنے اور خوف کو کم کرنے کے لیے، یوکرین کی حمایت کے ساتھ ہی پرامن حل پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔
پوتن کے ساتھ اب بھی دوستی کیوں ہے؟
گیرہارڈ شروئڈر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ یوکرین جنگ میں ہزاروں ہلاکتوں اور روسی جنگی جرائم کے باوجود اب بھی صدر پوتن کے ساتھ ان کی دوستی کیوں برقرار ہے؟ اس پر انہوں نے یہ جواب دیا کہ دونوں معاملات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ شروئڈر نے کہا کہ پوتن کے ساتھ ان کے جو ”مثبت واقعات” ہیں وہ انہیں فراموش نہیں کرنا چاہتے۔ ابتدا میں تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے پوتن کے ساتھ ان کا یہ ذاتی تعلق اس انتہائی چیلنجنگ سیاسی مسئلے کو حل کرنے میں بھی سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
شروئڈر نے انٹرویو کے دوران بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”اور اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کی سیاست میں ہمارے درمیان ہونے والے تمام مثبت واقعات کو فراموش کرنا بالکل غلط بات ہو گی۔” در اصل وہ فروری میں یوکرین پر روسی حملے کے فوراً بعد مارچ 2022 میں ثالثی سے متعلق اپنے ایک مشن کا حوالہ دے رہے تھے۔
اس وقت انہوں نے پوٹن کے ساتھ بات چیت کے لیے ماسکو جانے سے پہلے، استنبول میں یوکرین کے سابق رکن پارلیمان اور موجودہ وزیر دفاع رستم عمروف سے ملاقات کی تھی۔ تاہم ان کی یہ پہل کامیاب نہیں ہو سکی۔ شروئڈر اب پھر سے حکومتی سطح پر ثالثی کی ایک نئی کوشش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے تحت وہ فرانس اور جرمنی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس کی پہل کریں۔ سابق چانسلر نے کہا کہ یہ، ”پوری طرح سے واضح ہے کہ جنگ کسی ایک فریق یا دوسرے فریق کی مکمل شکست کے ساتھ ختم نہیں ہو سکتی۔”
دوستی کتنی پرانی ہے؟
شروئڈر سن 1998 میں جرمن چانسلر بننے کے بعد سے ہی روسی صدر پوتن کے دوست ہیں۔ سن 2012 میں یورپ میں سلامتی اور تعاون سے متعلق تنظیم نے روسی انتخابات میں نمایاں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی۔ تاہم اس وقت پوتن کو فاتح قرار دیا گیا تھا اور چار سال وزارت عظمی کے عہدے پر خدمات انجام دینے کے بعد روسی صدر کے طور پر انہوں نے اپنا عہدہ دوبارہ سنبھال لیا تھا۔ اس وقت گیرہارڈ شروئڈر نے پوتن کو ایک ”بے عیب جمہوریت پسند” کہا تھا۔
سابق چانسلر بحیرہ بالٹک کے ذریعے نورڈ اسٹریم پائپ لائنوں سے متعلق بیشتر روسی کمپنیوں کے لیے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ موجودہ جرمن چانسلر اولاف شولس نے دو برس قبل ان پر زور دیا تھا کہ وہ تمام روسی کمپنیوں سے مستعفی ہو جائیں۔ شروئڈر کی جماعت ‘سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹس’ (ایس پی ڈی) کے کئی ارکان یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی پوٹن کے ساتھ ان کے مسلسل تعلقات کی وجہ سے انہیں ترک کر چکے ہیں، لیکن انہیں پارٹی سے نکالنے کی تمام کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔