|
غزہ میں جنگ بندی سے متعلق اسرائیلی اور مصری مذاکرات کار غزہ اور مصر کی سرحد پر الیکٹرانک نگرانی کے ایک ایسے نظام کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں ،جس سے جنگ بندی پر کسی اتفاق کی صورت میں ،اسرائیل اس علاقے سے اپنی فوجیں واپس بلا سکتا ہے۔یہ بات مصر کے دو ذرائع اور اس معاملے سے واقف ایک تیسرے ذریعے نے رائٹرز کو بتائی۔
یہ سوال کہ آیا اسرائیلی فورسز غزہ میں جنگ بندی کے بعد سرحد پر اپنی موجودگ جاری رکھیں؟ غزہ میں کسی ممکنہ جنگ بندی کی راہ میں حائل ایک مسئلہ بن رہا ہے۔ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس اور مذاکرات کا ایک ثالث مصر، دونوں ہی اس کے خلاف ہیں کہ اسرائیل جنگ کے بعد وہاں اپنی فورسز کو برقرار رکھے۔
نگرانی کانظام اورجنگ بندی
رائٹرز کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو خدشہ ہےکہ اگر اس کے فوجی،اس سرحدی علاقے سے نکل جاتے ہیں،جس کا اسرائیل نے فلاڈیلفی کوریڈور کے طور پر حوالہ دیا ہے،تو حماس کا مسلح ونگ سرنگوں کے ذریعے مصر سے ہتھیار اور رسد کی اسمگلنگ کر سکتا ہے جس سے وہ دوبارہ مسلح ہوکر اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اگر مذاکرات کے فریق تفصیلات پر متفق ہو جاتے ہیں، تو نگرانی کا نظام جنگ بندی پر متفق ہونے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اگرچہ بہت سی دوسری رکاوٹیں باقی ہیں ۔
سرحد پر نگرانی کے نظام کے بارے میں اس سے قبل بھی رپورٹیں مل چکی ہیں، لیکن رائٹرز پہلی بار یہ اطلاع دے رہا ہے کہ اسرائیل،مذاکرات کے موجودہ مرحلے میں، سرحدی علاقے سے اپنی فورسز کی واپسی کے ایک خیال کے ساتھ بات چیت میں حصہ لے رہا ہے۔
رائٹرزکے مطابق اس معاملے سے واقف ایک ذریعہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ مذاکرات “بنیادی طور پر جاسوسی یا نگرانی کے ان آلات کے بارے میں ہیں جو فلاڈیلفی (کوریڈور) میں مصرکی جانب نصب کیے جائیں گے۔
ذریعے کے مطابق،” ظاہر ہے کہ اس خیال کا مقصد ان سرنگوں کا پتہ لگانا اور ایسے دوسرے طریقوں کا پتہ لگانا ہے جن کی مدد سے وہ(حماس) غزہ میں ہتھیار یا لوگوں کو اسمگل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ یرغمالوں سے متعلق کسی معاہدے میں ایک اہم عنصر ہوگا۔”
رائٹرز کا کہنا ہے کہ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا یہ جنگ بندی معاہدے کے لیے اہم ہوگا کیونکہ اس کامطلب یہ ہوگا کہ اسرائیلی فوجیوں کو فلاڈیلفی راہداری پر موجود نہیں رہنا پڑے گا، تو ذریعے نے کہا، ” درست ۔”
فلا ڈیلفی کوریڈور سے واپسی کی خبر جعلی ہے : نیتن یاہو
تاہم رائٹرز کے اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ یہ ” قطعی طور پر جعلی خبر” ہے کہ اسرائیل فلاڈیلفی راہداری سے واپسی پر بات چیت کر رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ “وزیراعظم کا اصرار ہے کہ اسرائیل فلاڈیلفی کوریڈور پر بر قرار رہے۔ انہوں نے مذاکراتی ٹیموں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے مزید کہا کہ”اس ہفتے امریکی نمائندوں پر یہ بات واضح کر دی ہے، اور گزشتہ رات سیکورٹی کابینہ کو اس سلسلے میں اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔”
دو مصری سیکورٹی ذرائع نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی مذاکرات کاروں نے ایک ہائی ٹیک نگرانی کے نظام کے بارے میں بات کی ہے ۔
دونوں ذرائع نے بتایا کہ مصر، امریکہ کی جانب سے حمایت اور اخراجات کی ادائیگی کی صورت میں ان آلات کی تنصیب کا مخالف نہیں تھا۔
رائٹرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مصر ایسی کسی چیز پر رضامند نہیں ہو گا جس سے اسرائیل اور مصر کے درمیان اس سے قبل کے امن معاہدے میں طے کئے گئے انتظامات میں کوئی بھی تبدیلی آئے۔
جمعرات کو ایک فوجی تقریب میں، نیتن یاہو نے کہا کہ وہ صرف کسی ایسے معاہدے پر متفق ہو سکتے ہیں جس میں غزہ-مصر سرحد پر اسرائیلی کنٹرول برقرار رہے ، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس کا مطلب وہاں فوجیوں کی فی الواقع موجودگی ہے۔
قطر اور مصر کے درمیان ایک معاہدے پر بات چیت جاری ہے،جسے واشنگٹن کی حمایت حاصل ہے اور جس کے طےپانے کی صورت میں غزہ میں دس ماہ سے جاری لڑائی میں ایک وقفہ آسکتا ہے ا ور حماس کے پا س قید یرغمالوں کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے۔
اسرائیلی حکام نے جنگ کے دوران کہا تھا کہ حماس نے اسلحے کی اسمگلنگ کے لیے مصر کے سینائی کے علاقے میں سرحد کے نیچے بچھائی جانے والی سرنگوں کا استعمال کیا تھا۔
مصر کا کہنا ہے کہ اس نے برسوں پہلے غزہ کی طرف جانے والی سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا تھا اور بفر زون اور سرحدی قلعے بنائے تھے جو اسمگلنگ کو روکتے ہیں۔
مئی کے اوائل میں جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیل کی پیش قدمی اور مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ کی بندش، فلسطینی علاقے میں داخل ہونے والی بین الاقوامی امداد کی ترسیل میں تیزی سے کمی کا باعث بنی۔
مصر کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ غزہ کو امداد کی ترسیل دوبارہ شروع ہو، لیکن یہ کہ رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولنے کے لیے وہاں فلسطینیوں کی موجودگی کو بحال کیا جانا چاہیے ۔
اسرائیل نے گذشتہ اکتوبر میں غزہ کی پٹی پراس کے بعد حملہ شروع کیا تھا جب حماس کے زیرقیادت عسکریت پسندوں نے جنوبی اسرائیل میں گھس کر تقریبأ 1,200 افراد کو ہلاک اور 250 سے زیادہ کو یرغمال بنا لیا تھا۔
غزہ میں طبی حکام کے مطابق، اس کے بعد سے، اسرائیل کی فورسز نے 38,000 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔