Wednesday, December 25, 2024
ہومWorldکیاعسکریت پسند گروپ حماس کے"1000 سے زیادہ ارکان"ترکی کے اسپتالوں میں زیر...

کیاعسکریت پسند گروپ حماس کے”1000 سے زیادہ ارکان”ترکی کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں؟



ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے پیر کو کہا ہےکہ غزہ میں جاری جنگ کے دوران فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے “1000 سے زیادہ ارکان” ترکیہ کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ انہوں نے اپنے موقف کو دہرایا حماس ایک “مزاحمتی تحریک” ہے۔

“اگر آپ حماس کو ‘دہشت گرد تنظیم’ کہتے ہیں، تو ہمیں اس پر افسوس ہو گا،” اردگان نے انقرہ میں یونانی وزیر اعظم Kyriakos Mitsotakis کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، جنہوں نے حماس کے لیے اس طرح کا حوالہ استعمال کیا تھا۔

اردوان نے کہا کہ “ہم حماس کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتے… حماس کے 1,000 سے زائد ارکان ہمارے ملک بھر کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔”
ترکیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بعد میں کہا کہ اردوان نے غلطی سے یہ کہا تھا اور ان کا مطلب تھا کہ غزہ کے 1000 شہری ترکیہ میں زیر علاج ہیں، حماس کے ارکان نہیں۔

7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد فلسطینی سرزمین میں اسرائیل کی جنگ کے سخت نقادوں میں سے ایک اردوان نے صحافیوں کے سامنے یہ اعلان کرتے ہوئے مزید کہا کہ وہ حماس کو “ایک مزاحمتی تنظیم” سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حماس کے بہت سے ارکان مارے گئے ہیں۔ پورا مغرب ان پر ہر طرح کے ہتھیاروں اور گولہ بارود سے حملے کر رہا ہے۔

حماس کو اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

رائٹرز فوری طور پر ترکیہ میں زیرِ علاج لوگوں کے پس منظر کا تعین نہیں کر سکا، لیکن نومبر میں انقرہ نے کہا تھا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے بعد غزہ کے درجنوں زخمی یا بیمارباشندوں کو، جن میں زیادہ تر کینسر کے مریض ہیں، اور ان کےاہل خانہ کو وہاں سے نکال رہا ہے۔

اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے نتیجے میں 1,170 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

حماس کا حملہ اور اس کے بعد کے واقعات

7 اکتوبر 2023 کو، اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے غیر معمولی حملےمیں 1200 سے کچھ کم افراد ہلاک ہوئے اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنا لیا گیا۔

اس کے ایک دن بعد 8 اکتوبر کو اسرائیل نے حماس کے خلاف غزہ میں حملے کا اعلان کیا۔ جس میں اب تک 33 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسی دن، ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ایران فلسطینیوں کے “جائز دفاع” کی حمایت کرتا ہے۔

انہوں نے اسرائیل پر “خطے میں اقوام کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے” کا الزام لگایا۔ مرکزی تہران میں بڑی ریلیز میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔

28 اکتوبر کو، اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ حماس کے فوجی بجٹ کا 90 فیصد ایران سے آتا ہے، بقول ان کے” وہ اس کی فنڈنگ کرتا ہے، منظم کرتا ہے، اسے ڈائریکٹ کرتا ہے۔”

ایران ایسے الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔

اسرائیل اور لبنان کے ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ میں روزانہ فائرنگ کا تبادلہ

غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کی شروعات کے بعد سے اسرائیل اور لبنان کے ایرانی حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کے درمیان سرحد پار سے روزانہ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل۔ایران کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہا۔

ایرانی حمایت یافتہ یمنی ہوثیوں کے بحیرہ احمر میں حملے

نومبر سے، یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی، جن کے پاس دارالحکومت صنعا کا کنٹرول ہے، فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے کر چکے ہیں۔

شام میں حملے، پاسداران انقلاب کے رہنماؤں کی ہلاکتیں

25 دسمبر کو، ایران نے شام میں اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے غیر ملکی آپریشنز کے ونگ، قدس فورس کے رازی موسوی ہلاک ہوئے۔

وہ تقریباً چار برس میں ایران سے باہر ہلاک ہونے والے قدس فورس کے سب سے سینئر کمانڈر تھے۔

اس کے کئی ہفتے بعد جنوری میں، دمشق میں کئے گئے ایک حملے میں پاسداران انقلاب کے پانچ ارکان ہلاک ہوئے۔

ایرانی میڈیا نے بعد میں رپورٹ دی کہ ہلاک ہونے والوں میں شام کے لیے گروپ کے انٹیلی جینس چیف اور ان کے نائب بھی شامل تھے۔

دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ

یکم اپریل کو، دمشق میں ایران کے سفارتی مشن پر ایک فضائی حملے میں، جس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا، سفارت خانے کے قونصلر کی ملحقہ عمارت زمین بوس ہو گئی۔ اس میں پاسداران انقلاب کے سات ارکان ہلاک ہوئے، جن میں سے دو جنرل تھے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حملے کے بعد کہا کہ اسرائیل کو اس کا جواب دیا جائے گا۔

خامنہ ای کہتےہیں کہ “غزہ میں صیہونی حکومت کی شکست جاری رہے گی اور یہ حکومت عنقریب زوال اور تباہی کا شکار ہو گی ۔”

ایران کا اسرائیل پرحملہ

دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کے تقریباً دو ہفتے بعد، ایران نے اسرائیل پر 300 سے زیادہ میزائل، ڈرون اور راکٹ داغے۔

ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب شروع ہونے والا تہران کا یہ حملہ اسرائیلی سرزمین پر اس کا پہلا براہ راست حملہ تھا۔

تاہم اس سے بہت کم نقصان ہوا، کیونکہ اسرائیل اور دوسرے ملکوں نے بیشتر پروجیکٹائل راستے ہی میں روک لیے۔

ایران اس حملے کو اپنے دفاع کی کارروائی قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب تک اسرائیل جوابی کارروائی نہیں کرتا وہ اس معاملے کو ختم سمجھے گا۔

اسرائیل کا ایران پر جوابی حملہ

لیکن جمعے کو، ایران کے سرکاری میڈیا نے وسطی صوبے اصفہان میں دھماکوں کی اطلاع دی، امریکی میڈیا نے حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ اسرائیل نے اپنے روایتی حریف کے خلاف انتقامی حملے کیے ہیں۔

اصفہان وہ شہر ہے جہاں ایران کی اہم جوہری تنصیبات واقع ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ ڈرونز غیر جوہری علاقے میں تھے۔ غیر مصدقہ اطلاعات میں بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی ڈرون حملے کا ہدف ایک غیر جوہری فوجی علاقہ تھا۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری مقامات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

دونوں حریف کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایران کی جانب سے خطے کے ممالک کو اپنے حملے کی گھنٹوں پہلے اطلاع دینے اور نقصان کو محدود رکھنے کے اقدام اور اسرائیل کی طرف سے آسانی سے مار گرائے جانے والے تین ڈرونز بھیجنے کا اقدام یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ملک محتاط ہیں اور وہ کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتے۔

دونوں نے بظاہر یہ حملے اپنے اندرونی دباؤ سے نمٹنے اور داخلی سیاسی ضرورت کے لیے کیے۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز اور اے پی سے لیا گیا ہے۔



Source

RELATED ARTICLES

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مقبول خبریں