شامی پاسپورٹ دنیا کے مہنگے ترین پاسپورٹوں میں سے ایک ہے۔ جرمنی میں شامی سفارت خانے سے ایک پاسپورٹ کے لیے 287ڈالر سے لے کر1080ڈالر تک اداکرنے پڑسکتے ہیں۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کے مبینہ مظالم سے بچنے کے لیے جرمنی آنے والے شامیوں کو شامی پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے اسی حکومت کو پیسے دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس پرجرمنی نے پابندیا ں عائد کر رکھی ہیں۔آدم یاسمین اسکول کے زمانے میں بھی سیاسی طورپر سرگرم تھے۔ سن 2011 میں جب شام میں جمہوریت نواز مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو، ملک کے آمر رہنما بشارالاسد کی وفادار فورسز کی طرف سے کارروائی کے خطرے کے باوجود انہوں نے بھی اپنے آبائی قصبے جبلہ میں کئی مظاہرے منظم کیے۔
شام میں یہ پرامن مظاہرے جب خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگئے تو آدم بھی، جب ان کی عمر سولہ سال تھی، اس کی زد میں آئے، انہیں گرفتار کرلیا گیا اور زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں،” میں سات ماہ تک جیل میں رہا اور یہ میری زندگی کا بدترین تجربہ تھا۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ ہم آزادی، جمہوریت اور آمرانہ حکومت کے خاتمے کی آواز بلند کررہے تھے۔” جیل سے رہائی کے بعد آدم یاسمین نے وطن چھوڑ دیا اور بالآخر جرمنی پہنچ گئے۔
آدم یاسمین اب 27سال کے ہوچکے ہیں، جرمنی کے فرائیبرگ میں رہتے ہیں، اپنی ڈگری مکمل کررہے ہیں اور روانی سے جرمن زبان بولتے ہیں۔ ایک سال قبل انہوں نے جرمن شہریت کے لیے درخواست دی تو انہیں بتایا گیا کہ اس کے لیے سب سے پہلے ایک اور چیز کی ضرورت ہے: ایک شامی پاسپورٹ۔ وہ اپنا پرانا شناختی کارڈ اور پیدائش کا سرٹیفیکٹ پہلے ہی پیش کرچکے تھے لیکن جرمن حکام نے انہیں بتایا کہ یہ کافی نہیں ہیں اور انہیں پاسپورٹ بھی جمع کرانا ہوگا۔ آدم کہتے ہیں،”میں نے انکار کردیا کیونکہ شام کی حکومت نے میرے ساتھ جو سلوک کیا اس کے بعد میں اسے کوئی رقم نہیں دینا چاہتا۔ یہ میرے لیے ایک سرخ لکیر ہے۔”
لاکھوں شامیوں کا مسئلہ
جرمنی میں اور بین الاقوامی قانون کے تحت سرکاری طورپر پناہ گزین کے طورپر تسلیم کیے گئے لوگوں کو کبھی بھی اس ملک کے سفارت خانے میں واپس جانے کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہئے جہاں سے وہ فرار ہوئے تھے۔ آدم یاسمین اس صورت حال کے ازالے کے لیے قانونی متبادل تلاش کررہے ہیں۔ اس مسئلے سے دوچاروہ صرف واحد شخص نہیں ہیں بلکہ جرمنی میں موجود نو لاکھ سے زائد شامیوں میں سے بیشتر لگ بھگ چھ لاکھ چالیس ہزار افراد اسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جنہیں عارضی رہائشی حیثیت یا ‘ذیلی تحفظ ‘ حاصل ہے۔
‘ذیلی تحفظ ‘ ایک طرح سے پناہ گزین سے کم تر درجہ ہے۔ یہ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے خانہ جنگی جیسی صورت حال کی وجہ سے اپنی جان کو خطرے کے پیش نظر ملک چھوڑدیا تھا تاہم جنہیں انفرادی طورپر براہ راست خطرہ لاحق نہیں ہے۔ جرمنی کی موجودہ بیوروکریسی کے مطابق ان سب کو شامی حکومت سے پاسپورٹ حاصل کرنا ہوگا۔ جرمنی کی وزارت داخلہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہر ملک کو اپنا پاسپورٹ جاری کرنے کے لیے اس کی فیس وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔ اور چونکہ شامی، جنہیں ذیلی تحفظ حاصل ہے، کو اپنی حکومت سے براہ راست خطرہ لاحق نہیں ہے لہذاایک شامی پاسپورٹ حاصل کرنا ان کے لیے “مناسب “ہو گا۔
جنگی جرائم کی مالی اعانت
شامیوں کے لیے جرمنی کے پاسپورٹ کے سخت قوانین کے خلاف بنیادی دلائل میں سے ایک اس کی فیس ہے، جس کی ادائیگی کا فائدہ بالآخر اسد حکومت کو ہوتا ہے۔ شامی پاسپورٹ دنیا کے مہنگے ترین پاسپورٹوں میں سے ایک ہے۔ جرمنی میں شامی سفارت خانے سے ایک پاسپورٹ کے لیے 287ڈالر سے لے کر1080ڈالر تک اداکرنے پڑسکتے ہیں اور یہ پاسپورٹ صرف دو سال کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جرمن صرف 107ڈالر میں نیا پاسپورٹ حاصل کرسکتے ہیں جو دس سال کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔
جرمنی میں پناہ گزینوں کی آواز بلند کرنے والی تنظیموں نے سن 2022کے اواخر میں #DefundAssad کے نام سے ایک قومی مہم شروع کی تھی۔ اس کے مطابق جرمن قوانین کی وجہ سے اسد حکومت کے خزانے میں سالانہ 92ملین ڈالرجاسکتے ہیں۔ شام کی سیاسی معیشت کے ماہر کرم شعار نے پاسپورٹ کی معیاد ختم ہونے، پاسپورٹ رکھنے کی عمر کے شامیوں اور سیاسی پناہ کی حیثیت جیسے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تفصیلی تحقیق کی ہے۔ ان کے نتائج بتاتے ہیں کہ #DefundAssad مہم کے اندازوں کے مقابلے اسد حکومت کو کم رقم مل رہی ہے۔ جرمنی میں شامیوں سے اسے ملنے والی سالانہ رقم پندرہ ملین سے چالیس ملین ڈالر کے درمیان ہے۔
شعار کا کہنا ہے کہ جوچیز ناقابل تردید ہے وہ یہ ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے دوران پاسپورٹ اسد حکومت کی آمدنی کا ایک اچھا ذریعہ بن گیا تھا۔ “شام کے قومی بجٹ میں قونصلر خدمات، پاسپورٹ کا اجراء اور تجدید، سے حاصل ہونے والی آمدنی سن 2010 میں حکومتی محصولات کے 0.4 فیصد سے بڑھ کر سن 2023 میں 5.4 فیصد ہو گیا۔”
پہلے یہ مسئلہ نہیں تھا
جرمنی میں شامیوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہمیشہ سے نہیں تھا۔ سن 2018 تک برلن سمیت متعد د جرمن ریاستوں کے حکام یہ مانتے تھے کہ نئے شامی پاسپورٹ کا مطالبہ کرنا “غیر معقول”ہے۔ شامیوں کو عام طورپر بھورے رنگ کا “غیر ملکی پاسپورٹ”جاری کیا جاتا تھا۔ گرچہ باویریا سمیت بعض ریاستوں میں شامیوں کے لیے نیا پاسپورٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا تھا۔
سن 2018کے اوائل میں، اس وقت کے وزیر داخلہ اور قدامت پسند کرسچن سوشل یونین کے رہنما ہورسٹ سیہوفر نے ایک زیادہ مربوط طریقہ کار اپنانے پر زور دیتے ہوئے وفاقی حکام کو باویریائی طرز عمل اپنانے کی ہدایت دی۔ سیہوفر تارکین وطن کے متعلق اپنے سخت رویے پر فخر کرتے تھے اور انہوں نے سن 2019میں وفاقی پاسپورٹ کے ضابطوں کو مزید سخت کردیا۔ ڈی ڈبلیو کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یورپی یونین کے چھ ممالک میں سے، جن میں شامیوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے، جرمنی شاید سب سے زیادہ پابندیوں والا ملک ہے۔
اس کا حل کیا ہے؟
#DefundAssad مہم کے منتظمین میں سے ایک ماریسا رائزر کا کہنا ہے کہ پاسپورٹ کے متعلق سیہوفر کی ہدایت سیاسی نوعیت کی تھی۔ رائسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہم نے سیاست دانوں سے بات کی ہے اور سب سمجھتے ہیں کہ یہ افسوسناک ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ یہاں کوئی شامی حکومت کو پیسے بھیجے۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وزارت داخلہ اس کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے۔”
انہوں نے کہا، حالانکہ نئے قانون کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ”ہمیں صرف اس چیز کی ایک مختلف تشریح کی ضرورت ہے جو پہلے سے موجود ہے اور جو پہلے بھی ہو رہا تھا۔” وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر اصل ملک کے سفارت خانے کا دورہ مناسب نہیں ہے تو جرمن حکام پاسپورٹ کی تبدیلی کی دستاویزات جاری کرنے پر غور کرسکتے ہیں لیکن “متعلقہ افراد کو اپنے حق میں تمام وجوہات اور مخصوص حالات کا ٹھوس ثبوت فراہم کرنا چاہئے۔”
لیکن مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ عملی طور پر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی درخواست دہندہ حکام کے سامنے یہ ثابت کرسکے کہ یہ غیر معقول ہے اور صورت حال اب بھی مایوس کن ہے۔ آدم یاسمین کہتے ہیں کہ “ہم سے یہاں ضم ہونے کی توقع کی جاتی ہے لیکن حکام ہمارے راستے میں روڑے ڈال رہے ہیں۔ وہ ہمیں اس حکومت کوتقریباً گیارہ سو ڈالر ادا کرنے کو کہہ رہے ہیں جس نے ہمیں اپنے ہی ملک سے باہر نکال دیا، ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ہمارے خاندانوں کو مار ڈالا۔ اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارا نہیں تمہارا مسئلہ ہے۔ یہ ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے اور یہ بند ہونا چاہئے۔ “
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔