یمن کے حوثی باغیوں نے اتوار کو بحیرۂ احمر میں امریکہ کے جنگی بحری جہاز کی طرف ایک اینٹی شپ کروز میزائل داغا جسے امریکی لڑاکا طیارے نے تباہ کر دیا ہے۔
اسرائیل کی غزہ میں حماس کے خلاف جاری جنگ کے دوران حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر کے اہم راستے میں کئی جہازوں پر حملے کیے جس کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر گزشتہ ہفتے حملے شروع کیے گئے تھے۔
حوثیوں کی طرف سے اتوار کو امریکی بحری جہاز کی طرف داغا گیا میزائل اب تک کا پہلا حملہ ہے جسے امریکہ نے تسلیم کیا ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے ایک بیان میں کہا کہ حوثیوں نے بحیرہ احمر کے جنوبی علاقوں میں یو ایس ایس لیبون نام کے جنگی بحری جہاز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔
یہ میزائل بحیرہ احمر کے ساحلی شہر حدیدہ کے قریب سے فائر کیا گیا جو طویل عرصے سے حوثیوں کے قبضے میں ہے۔
سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ اس اینٹی شپ کروز میزائل کے واقعے میں کوئی زخمی یا نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی قیادت میں ہونے والے حملوں کے پہلے دن جمعہ کو حوثیوں کی 28 تنصیبات پر لڑاکا طیاروں، جنگی جہازوں اور ایک آبدوز کے ذریعے کروز میزائلوں اور بموں سے 60 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس کے بعد امریکی افواج نے ہفتے کے روز حوثیوں کی ایک ریڈار سائٹ پر حملہ کیا تھا۔
حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ بحیرۂ احمر میں بین الاقوامی بحری جہازوں کو اسرائیل کے غزہ میں حملوں کے جواب میں نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے بقول وہ اس وقت تک یہ حملے کرتے رہیں گے جب تک غزہ میں لڑائی ختم نہیں ہوتی۔
گزشتہ سال سات اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو ایک سو دن ہو چکے ہیں لڑائی ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ‘یہ صحیح وقت ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بڑے پیمانے کےحملوں سے چھوٹی ٹارگٹڈ کارروائیوں کی طرف جائے۔
حوثیوں نے نہر سوئیز سے یورپ جانے والی ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کی توانائی اور کارگو کی ترسیل کو جوڑنے والی اہم راہداری کو نشانہ بنایا ہے۔
لبنان سے حملے میں دو اسرائیلی ہلاک
لبنان کی طرف سے فائر کیے گئے ایک اینٹی ٹینک میزائل میں اتوار کے روز شمالی اسرائیل میں دو شہری ہلاک ہو گئے۔ یہ میزائل سرحد کے قریب واقع ایک اسرائیلی قصبے میں ایک گھر سےٹکرایا۔
اس تازہ ترین حملے سے اسرائیل اور حماس کی جاری جنگ کے پس منظر میں لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر ایک اور لڑائی کے پھوٹ پڑنے اور علاقائی جنگ کے مزید خدشات پیدا ہو گئے۔
لبنان کی طرف سے حملہ ایک روز قبل اسرائیلی فوج کی اس کارروائی کے بعد ہوا جب فوج کے مطابق اس نے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جو لبنان سے اسرائیل میں داخل ہوئے تھے اور حملہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
لبنان سے اسرائیلی سرحدی علاقے میں یہ ہلاکت خیز حملہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع کے 100 ویں دن ہوا جب پورے خطے میں تناؤ بڑھ گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کی لگ بھگ روزانہ لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے ساتھ جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
ادھر ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا گروپ شام اور عراق میں امریکی اہداف پر حملہ کر رہے ہیں جب کہ یمن کے حوثی باغی بین الاقوامی جہاز رانی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
پچھلے سال اکتوبر میں شروع ہونے والی اسرائیل اور حماس کی جنگ میں لگ بھگ 24 ہزار فلسطینیوں کی اموات ہو چکی ہیں جب کہ اسرائیل نے محصور علاقے میں حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان حملوں نے غزہ کے وسیع علاقے کو تباہ کر دیا۔ غزہ کی پٹی کے تقریباً 23 لاکھ باشندوں میں سے 90 فی صد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ایک چوتھائی آبادی کو فاقہ کشی کا سامنا ہے ۔
جنگ کا باعث بننے والے حماس کے سات اکتوبر کے جنوبی اسرائیل پر حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد کو ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس کے علاوہ حماس نے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، جن میں سے نصف ابھی تک اس کہ تحویل میں ہیں۔
حماس نے یرغمالیوں کی ویڈیو جاری کر دی
حماس نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں تین اسرائیلی یرغمالیوں کو دکھایا گیا ہے جن کو غزہ میں یرغمال بنایا گیا ہے۔
حماس نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ عسکریت پسند گروپ کے خلاف کارروائی روکے اور یرغمالوں کی رہائی عمل میں لائے۔
سینتیس سیکنڈ کی ویڈیو میں 26 سالہ نوآ ارگمانی، 53 سالہ یوسی شرابی اور 38 سالہ اتائی سورسکی کو دکھایا گیا ہے۔
حماس نے اتوار کو کہا تھا کہ اسرائیلی فورسز کی غزہ پر گولہ باری کے دوران اس کا کچھ یرغمالیوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ شاید وہ اس دوران مارے گئے ہوں۔
اسرائیلی حکام نے عام طور پر یرغمالیوں کے بارے میں حماس کے عوامی پیغامات کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے اسے نفسیاتی جنگ قرار دیا ہے۔
لیکن اسرائیل نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ اپنے حملے سے یرغمالیوں کو لاحق خطرات سے آگاہ ہے اور احتیاطی تدابیر اختیار کر رہا ہے۔
حماس کے جنگجوؤں نے تقریباً 240 افراد کو سات اکتوبر کے حملے میں یرغمال بنا لیا تھا ۔ ان میں سےتقریباً نصف کو نومبر کی جنگ بندی میں رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ 25 یرغمالی قید کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 132 افراد ابھی یرغمال ہیں۔
اس خبر میں شامل کچھ مواد خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔