|
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ 68 افراد کو جن میں 19 بیمار اور زخمی بچے اور ان کے ساتھی شامل ہیں مئی کے بعد پہلے طبی انخلاء میں ایسے میں غزہ کی پٹی سے باہر اور مصر جانے کی اجازت دی گئی ہے، جبکہ اس علاقے کی واحد سفری گزرگاہ بند ہے۔
فلسطینی شہری امور کے ذمہ دار اسرائیلی فوجی ادارے نے، جسے اس کے مخفف نام سی او جی اے ٹی سے جانا جاتا ہے، جمعرات کو کہا کہ انخلاء امریکہ، مصر اور عالمی برادری کے حکام کے ساتھ مل کر کیا گیا۔
بچے اور ان کے ساتھی کریم شلوم کراسنگ کے راستے غزہ کی پٹی سے نکلے، ان مریضوں کو علاج کے لیے مصر اور آگے تک کا سفر کرنا ہے۔
اسرائیل اور حماس کی تقریباً نو ماہ کی جنگ نے غزہ کے صحت کے شعبے کو تباہ کر دیا ہے اور اس کے بیشتر اسپتالوں کو بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد کو بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے، جن میں سینکڑوں فوری نوعیت کے کیسز بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل خاندان کے افراد نے بچوں کو روتے ہوئے الوداع کہا جب وہ اور ان کے محافظ جنوبی غزہ کے قصبے خان یونس کے ناصر ہسپتال سے کریم شالوم کارگو کراسنگ کے لیے روانہ ہوئے۔
ان میں سے چھ بچوں کو اس ہفتے کے شروع میں غزہ شہر کے العہلی اسپتال سے ناصر اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ پانچ کو کینسر ہے اور ایک میٹابولک سنڈروم کا شکار ہے۔ اس انخلاء کا اہتمام عالمی ادارہ صحت نے کیا تھا، جس سے فوری طور پر تبصرے کے لئے ابطہ نہ ہو سکا
جمعرات کو ناصر اسپتال میں ایک پریس کانفرنس میں، غزہ کے ہسپتالوں کے سربراہ، ڈاکٹر محمد زقوت نے کہا کہ انخلاء کا عمل ڈبلیو ایچ او اور تین امریکی خیراتی اداروں کے ساتھ مل کر کیا جا رہا ہے۔
زقوت نے کہا کہ غزہ میں 25,000 سے زیادہ مریضوں کو بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے، جن میں کینسر کے شکار تقریباً 980 بچے بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی کو “فوری اور ہنگامی انخلاء” کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعرات کا انخلاء “سمندر میں ایک قطرے” کے برابر ہے اور یہ کہ کریم شالوم کا پیچیدہ راستہ رفح کراسنگ کے متبادل کے طور پر کام نہیں کر سکتا۔
زقوت نے کہا کہ 21 بچوں کو جمعرات کو روانہ ہونا تھا، لیکن ایک بچہ ہسپتال میں بہت تاخیر سے پہنچا۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ اس بچے کے انخلاء میں کیا چیز مانع تھی
نور ابو زہری اپنی جوان بیٹی کو الوداع کہتے ہوئے رو پڑے۔ اسرائیلی فضائی حملے میں لڑکی کے سر پر شدید زخم آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس کے ساتھ غزہ چھوڑنے کی منظوری نہیں ملی، تاہم اس کی والدہ ساتھ ہیں۔
کامیلا ابوکویک اس وقت رو پڑیں جب ان کا بیٹا کراسنگ کی طرف جانے والی بس میں سوار ہوا۔ انکو اور انکے شوہر دونوں کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
“اس کے پورے جسم میں ٹیومر پھیلے ہوئے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ اور اسے مسلسل بخار رہتا ہے،” انہوں نے کہا۔ “میں ابھی تک نہیں جانتی کہ وہ کہاں جا رہا ہے.”
ایک اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم فزیشنز فار ہیومن رائٹس اسرائیل اور گیشا، نے اسرائیل کی سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ طبی علاج کی ضرورت والے لوگوں کو غزہ سے انخلاء کے لیے اجازت دینے کے واسطے ایک “مستقل نظام” وضع کیا جائے۔
انسانی حقوق کے لیے ڈاکٹروں کے ایک وکیل، عدی لسٹگمین نے کہا کہ 7 مئی سے پہلے جب اسرائیلی فوج نے رفح میں زمینی کارروائی شروع کی اور کراسنگ کا کنٹرول سنبھالا، تقریباً 50 فلسطینی مریض روزانہ علاج کے لیے مصر جاتے تھے۔
گیشا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تانیہ ہیری نے کہا کہ یہ حقیقت کہ جمعرات کو 70 سے بھی کم لوگوں نے اسکے”دو ماہ کے بعد جب کراسنگ بند کی گئی، ایک سانحے سے بھی زیادہ ہے “۔ “اس کے بارے میں ہمارا احساس یہ ہے کہ یہ ردعمل کے لحاظ سے صرف نا پائیدار ہے۔”
انہوں نے اسرائیلی فوج سے رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولنے اور مریضوں کو علاقے کے شمالی حصے میں واقع ایریز کراسنگ سے باہر نکلنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا، جو اس سے قبل اسرائیل میں داخل ہونے والے فلسطینیوں کے لیے مرکزی گزرگاہ تھی۔
اسرائیل کی سپریم کورٹ پیر کو اس درخواست پر سماعت کرے گی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں، مشرقی بحیرہ روم کے لیے عالمی ادارہ صحت کی علاقائی ڈائریکٹر، حنان بلخی نے بچوں کے انخلاء کی خبروں کا خیر مقدم کیا، لیکن توجہ دلائی کہ “10,000 سے زیادہ مریضوں کو ابھی بھی غزہ سے باہر طبی امداد کی ضرورت ہے۔
7 اکتوبر سے طبی انخلاء کے لیے درخواست دینے والے 13,872 افراد میں سے صرف 35 فیصد کو ہی بھیجا جا سکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “غزہ سے شدید بیمار مریضوں کو تمام ممکنہ راستوں سے مستقل، منظم، محفوظ اور بروقت گزرنے کے لیے طبی انخلاء کی راہداریوں کو فوری طور پر قائم کیا جانا چاہیے۔”
اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔