|
ویب ڈیسک — ایران کی فورسز کے پانچ اہلکار پاکستان کی سرحد کے قریب مبینہ عسکریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے نے ‘ارنا’ کی رپورٹ کے مطابق سرحد کے قریب عسکریت پسندوں نے یہ حملہ اتوار کو کیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے پانچوں افراد پاسدارانِ انقلاب کے نیم فوجی دستوں پر مشتمل فورس ‘بسیج’ کے اہلکار تھے۔
ہلاک اہلکاروں کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ وہ بلوچ نسلی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔
ان اہلکاروں پر ایران کے صوبے سیستان بلوچستان کے شہر سراوان میں حملہ کیا گیا۔ یہ شہر دارالحکومت تہران سے لگ بھگ 1400 سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی بھی گروہ نے قبول نہیں کی۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق اس حملے سے قبل ایران کے سرکاری ٹی وی نے رپورٹ کیا تھا کہ پاسدارانِ انقلاب نے ایک کارروائی میں تین دہشت گردوں کو ہلاک جب کہ نو کو گرفتار کیا ہے۔
رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ کارروائی میں کس گروہ کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ سراوان شہر سمیت ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ بھی فائرنگ کے ایک واقع میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں صوبے میں پاسدارانِ انقلاب کے چیف بھی شامل تھے۔
اس سے قبل ستمبر میں سیستان بلوچستان میں دو مختلف مقامات پر حملے کیے گئے جن میں چار سرحدی محافظ ہلاک ہوئے تھے۔
ان دو میں سے ایک حملے کی ذمے داری عسکری تنظیم ‘جیش العدل’ نے قبول کی تھی۔ اس حملے میں ایک افسر اور دو اہلکار مارے گئے تھے۔
جیش العدل نامی عسکری تنظیم اس صوبے میں بسنے والی نسلی بلوچ اقلیت کے لیے زیادہ حقوق کی خواہاں ہے۔
عسکریت پسند گروہ جیش العدل (انصاف کی فوج) 2012 میں منظر عام پر آیا تھا۔
جیش العدل زیادہ تر سنی عسکریت پسند گروپ جنداللہ کے ارکان پر مشتمل ہے جو جیش العدل کے منظر عام پر آنے کے بعد کمزور پڑ گیا تھا۔ ایران نے جنداللہ کے زیادہ تر ارکان کو گرفتار کر لیا تھا۔
یہ ایران مخالف گروپ مشرقی ایرانی صوبے سیستان اور پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کی آزادی چاہتا ہے۔
جیش العدل کا کہنا ہے کہ وہ شیعہ اکثریتی ایران میں نسلی اقلیتی بلوچوں کے حقوق اور بہتر زندگی کی خواہاں ہیں۔
عسکریت پسند گروپ کی جانب سے حالیہ برسوں میں سیستان بلوچستان میں ایرانی سیکیورٹی فورسز پر کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے متصل اس علاقے میں سنی عسکریت پسندوں اور ایرانی سیکیورٹی فورسز کے درمیان اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں ایران نے پاکستانی سرحد کے اندر جیش العدل کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد پاکستان نے بھی ایران کے اندر علیحدگی پسند عسکری گروپ پر فضائی حملہ کیا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان اس کشیدگی سے قبل دسمبر میں سیستان بلوچستان کے علاقے رسک میں ایک پولیس اسٹیشن پر رات گئے کیے جانے والے حملے میں 11 ایرانی پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس وقت ایرانی وزیرِ داخلہ احمد واحدی نے جائے وقوعہ کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرحدوں میں اڈے قائم کرنے سے روکے۔
پاکستان ایران کے الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا الزام ہے کہ سیستان بلوچستان میں ان گروہوں کے ٹھکانے ہیں جو بلوچستان میں شورش میں ملوث ہیں۔
جیش العدل کیا ہے؟
جیش العدل ایران کے سرحدی صوبے سیستان بلوچستان صوبے میں فعال ایک سنی بلوچ شدت پسند تنظیم ہے جس کے بیشتر اراکین ماضی میں ‘جند اللہ’ نامی گروہ سے وابستہ رہے ہیں۔
سن 2010 میں جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کی ایرانی فورسز کے ہاتھوں گرفتاری اور پھانسی کے دو سال بعد ‘جیش العدل’ کا نام 2012 میں اس وقت سننے میں آیا تھا جب گروہ نے پاسداران انقلاب کے 10 اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک یہ تنظیم درجنوں مہلک حملوں میں سینکڑوں ایرانی اہلکاروں کو نشانہ بنا چکی ہے۔
امریکہ کے ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹیلی جینس کے مطابق جنداللہ ہی نے 2012 میں اپنا نام تبدیل کر کے جیش العدل رکھا ہے جب کہ یہ تنظیم کبھی کبھار ‘پیپلز ریزسٹنس آف ایران’ کا نام بھی استعمال کرتی ہے۔
ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹیلی جینس کا یہ کہنا ہے کہ جیش العدل ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں بھی فعال ہے۔
خیال رہے کہ ایران اور امریکہ نے جیش العدل کو کالعدم تنظیم قرار دیا ہے۔ البتہ جیش العدل پاکستانی حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی درجنوں تنظیموں میں شامل نہیں ہے۔