|
ویب ڈیسک — بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کئی دیگر علاقوں میں ہزاروں مظاہرین جمعے کو سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے استعفے اور گزشتہ ماہ 200 سے زیادہ افراد کی ہلاکت پر انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔
اطلاعات ہیں کہ ڈھاکہ میں جمعے کو ہونے والے احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس آمنے سامنے آ گئے جب کہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آںسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں چلائیں جب کہ بعض مقامات پر اسٹن گرینیڈ بھی پھینکے۔ جواب میں مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق جھڑپوں کے دوران 20 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ بنگلہ دیش کے مقامی اخبار ‘دی ڈیلی اسٹار’ نے رپورٹ کیا ہے کہ کھلنا شہر کے نواح میں مظاہرین کے حملوں کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹبل بھی ہلاک ہوا ہے جس کے قتل کے الزام میں 1200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہابیگنج ضلع میں پُرتشدد مظاہروں کے دوران ایک شخص ہلاک اور 50 زخمی ہوئے ہیں۔
‘ڈیلی اسٹار’ کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ہفتے اور اتوار کو بھی مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے 15 سالہ دورِ حکومت میں امن و امان کی یہ بدترین صورتِ حال ہے۔ وہ رواں برس جنوری میں مسلسل چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئی تھیں۔
حالیہ مظاہروں کا آغاز کب ہوا؟
بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ نظام کے خلاف 15 جولائی کو طلبہ کی جانب سے شدید مظاہرے کیے گئے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے ملازمتوں کے کوٹے سے متعلق فیصلے کے بعد مظاہروں میں ٹھہراؤ آ گیا تھا۔
مظاہرین بنیادی طور پر پاکستان سے آزادی کی لڑائی میں حصہ لینے والے خاندانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 30 فی صد کوٹہ مختص کیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
مظاہرین کا الزام تھا کہ ملازمتوں کے کوٹے سے وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کو فائدہ ہو رہا ہے۔ عوامی لیگ ہی وہ جماعت تھی جس کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن نے 1971 میں پاکستان سے علیحدگی کے لیے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی قیادت کی تھی۔
گزشتہ ماہ مظاہروں میں شدت اس وقت آئی تھی جب مظاہروں کے منتظمین نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس اور حکومت کے حامی گروہوں نے ان پر حملے کیے ہیں۔
پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے واقعات کے بعد وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز معطل کر دی تھیں۔
کریک ڈاؤن کے دوران مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ہلاکت خیز جھڑپوں میں 200 سے زیادہ اموات ہوئیں۔
اقوامِ متحدہ کے چلڈرن فنڈ کے ریجنل ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا سنجے وجسیکارا نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں میں 32 بچے بھی شامل تھے۔
سنجے کے مطابق ان کے علم میں ہے کہ حکام نے مظاہروں سے تعلق کے شبہے میں بچوں کو بھی حراست میں لے رکھا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور امریکہ نے بنگلہ دیش میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی مذمت کی تھی۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں اداروں ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’، ‘رائٹرز’ اور ‘اے ایف پی’ سے لی گئی ہیں۔