ملالہ یوسفزئی اکتوبر 2012 میں پاکستان کی وادی سوات میں طالبان کے حملے کا نشانہ بننے کے بعد برسوں تک زیر علاج رہنے کے بعد صحت یاب ہوئی تھیں۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں ملالہ یوسفزئی نے دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ صنفی امتیاز کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیں۔ انہوں نے دنیا کو طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہ کرنے سے بھی خبردار کیا ہے۔لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم نوبل انعام یافتہ پاکستانی سماجی کارکنملالہ یوسفزئی نے دنیا سے مطالبہ کیا ہےکہ وہ افغانستان میں “صنفی تعصب” کو تسلیم کرے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں ملالہ کا کہنا تھا کہ طالبان کے احکامات منظم طریقے سے افغانستان میں لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی کے منظر نامے سے ہٹا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا،”ہم سب کو طالبان کا احتساب کرنے کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے میں تمام حکومتوں سے مطالبہ کر تی ہوں کہ وہ صنفی امتیاز کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیں۔‘‘ ان کا یہ انٹرویو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے افغانستان کی صورتحال پر بیس دسمبر بروز بدھ منعقد کیے جانے والے اجلاس سے قبل سامنے آیا ہے۔ اقوام متحدہ اس وقت انسانیت کے خلاف جرائم کے نئے معاہدے کا مسودہ تیار اور اس پر بحث کر رہی ہے۔
ملالہ نے کہا کہ اس مسودے پر تبصروں کے لیے اپریل 2024 کی ابتدائی ڈیڈ لائن سے پہلے، ہمیں تمام رکن ممالک کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغان خواتین کے خلاف صنفی تعصب کے خاتمے کے مقصد کی حمایت کریں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے معاہدے کے مسودے میں صنفی امتیاز کے خلاف مبنی زبان کو شامل کریں، اور اسے بین الاقوامی قانون کے تحت وضع کرنے میں مدد کریں۔
خیال رہے کہ ملالہ یوسفزئی اکتوبر 2012 میں پاکستان کی وادی سوات میں طالبان کے حملے کا نشانہ بننے کے بعد برسوں تک زیر علاج رہنے کے بعد صحت یاب ہوئی تھیں۔ تاہم اس کے بعد انہوں نے مزید زور و شور کے ساتھ کم سن لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھانا شروع کی۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے ملالہ فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا۔ ان کی خدمات کے نتیجے میں انہیں 2014 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے انہوں نے وہاں خواتین کی تعلیم اور ان پر دیگر پابندیوں کے خلاف بھی کھل کر آواز اٹھائی۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا “صنفی تعصب سے متعلق ضابطہ ترتیب دینے کا عمل ترقی کے لیے اہم ہے، لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس میں کافی وقت لگے گا۔” ملالہ نے کا کہنا تھا کہ اس دوران کسی بھی حکومت، اقوام متحدہ کے اہلکار یا کارپوریٹ لیڈر کو طالبان کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لانے چاہیے کیونکہ ان کے بقول یہ خواتین اور لڑکیوں کی بنیادی آزادیوں سے انکار کو ایک معمول بنا دے گا اور اس سے صنفی مساوات کے لیے عالمی ترقی کو خطرہ لاحق ہو گا۔
ملالہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اسکولوں پر پابندی کے دوران ہمیں لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے میں مدد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ”مخیر حضرات اور سرمایہ کار افغان اور بین الاقوامی تنظیموں کے لیے اپنی فنڈنگ میں اضافہ کر سکتے ہیں، جو افغان لڑکیوں کو ان کے گھروں تک تخلیقی متبادل اور ڈیجیٹل زریعے سے تعلیمی پروگرام فراہم کر رہی ہیں۔‘‘
ملالہ کا کہنا تھا کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے شہریوں بشمول طلبہ، حقوق نسواں اور انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی رہنماؤں کو طالبان پر عوامی دباؤ بڑھانا چاہیے اور صنفی تعصب کے خاتمے کے لیے مہم کی حمایت کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ”ہمیں افغان خواتین اور لڑکیوں کو ایک واضح پیغام بھیجنا چاہیے کہ ہم انہیں دیکھتے ہیں، ہم ان کی پکار سنتے ہیں اور ہم ان ست یکجہتی کے لیے تیار ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;