|
اسرائیل نے بدھ کو کہا کہ اس نے جنوبی لبنان میں حملے کیے ہیں جن میں حزب اللہ کے ہتھیاروں کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ لبنان سے اسرائیل کی طرف داغے جانے والے کئی راکٹوں کا روک دیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کے علاقے پر فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ شمالی غزہ میں زمینی کارروائیاں کی بھی کیں ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت نے بدھ کو بتایا کہ اسرائیلی کارروائیوں میں کم از کم مزید 76 مزید افراد کی ہلاکت کے بعد 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کم از کم 29954 افراد ہلاک اور 70325 زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیل، حماس اور قطری ثالثوں نے منگل کے روز امریکی صدر جو بائیڈن کی اس تجویز کو نظر انداز کر دیا کہ حماس کے عسکریت پسندوں اور اسرائیل کے درمیان پانچ ماہ سے جاری لڑائی میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی سے متعلق ایک نیا معاہدہ جلد طے پا سکتا ہے۔
حماس اس تجویز پر غور کر رہی ہے، جس پر اسرائیل نے گزشتہ ہفتے پیرس میں ثالثوں کے ساتھ بات چیت کے دوران اتفاق کیا تھا۔ اس تجویز میں رمضان المبارک میں 40 دنوں تک لڑائی روکنے کا کہا گیا ہے جو پہلی توسیع شدہ جنگ بندی ہو گی۔
لیکن بظاہر اس معاہدے میں جنگ کے مستقل خاتمے اور اسرائیلی فوج کے انخلا سے متعلق حماس کے بنیادی مطالبے کا احاطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان یرغمالوں کی قسمت کا فیصلہ کیا گیا ہے جو جنگ میں حصہ لینے کی عمروں میں ہیں ۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں کہا تھا کہ عارضی جنگ بندی سے اسرائیل کا جنوبی قصبے رفح میں حملے کرنے کا منصوبہ تبدیل نہیں ہو گا تاکہ حماس کے خاتمے سے متعلق اسرائیل کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔
رفح میں فوجی آپریشن کے اسرائیلی عزم نے بین الاقوامی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے کیونکہ غزہ اور دوسرے علاقوں سے جنگ سے بچنے کے لیے فرار ہونے والے لاکھوں پناہ گزین وہاں رہ رہے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے رفح سے شہریوں کو نکالنے کا ذکر کیا ہے تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائی ہیں کہ فلسطینی کہاں جا سکیں گے۔ مصر نے، جس کی سرحد رفح سے ملتی ہے، کہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں نہیں کھولے گا۔
اقوام متحدہ نے جنوبی غزہ سے شہری آبادی کو منتقل کرنے کے کسی بھی منصوبے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے میں اسرائیلی فوجی منصوبوں سے ان لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا جنہیں پہلے ہی انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے معلومات رائٹرز، اے پی اور اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)