کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا غصہ ن لیگ کی دھوکے بازی کا جواب ہے، جس کی وجہ سے مولانا کے سیاسی عزائم خاک میں مل گئے۔
مولانا فضل الرحمن کے بیانات کو روز روشن قرار دینا، پاکستان تحریک انصاف کے تو حق میں ہی ہے لیکن دیگر کچھ حلقوں کے طرح پاکستان علماء کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کے بقول فضل الرحمن کے دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں۔پاکستان تحریک انصاف مولانا فض الرحمن کے دعوؤں کی کسی حد تک تصدیق کرتی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسرے فریقین اس کی تردید کرتے ہوئے دکھائی دیٓتے ہیں۔
فضل الرحمن کے انکشافات
مولانا فضل الرحمن نے جمعرات کو ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید نے سیاسی جماعتوں کو عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی راہ دکھائی تھی۔
ان کا دعویٰ تھا کہ جنرل فیض اور جنرل باجوہ تمام سیاسی جماعتوں سے تحریک عدم اعتماد کے مسئلے پر رابطے میں تھے اور یہ کہ بعد میں پی پی پی اور ن لیگ نے بھی اس کی حمایت کی۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ وہ تحریک اعتماد کے حق میں نہیں تھے لیکن اپنے دوستوں کی خاطر انہوں نے اپنے نقطہ نظر کی قربانی دی۔
ان انکشافات کے بعد فضل الرحمن نے اپنے دیرینہ سیاسی دشمن عمران خان کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ کئی حلقوں میں ان انکشافات کے مقاصد اور صحت پر بحث ہو رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، مسلم لیگ (ن) اور دونوں جنرلوں کے قریبی حلقوں نے مولانا کے دعوؤں کی تردید کی ہے۔
پاکستان علماء کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مولانا فضل الرحمن کی دعوؤں میں کوئی حقیقت نہیں۔ جنرل باجوہ یا جنرل فیض حمید نے سیاسی جماعتوں کو کبھی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا نہیں کہا۔‘‘
معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ مولانا کی طرز سیاست کی وجہ سے ان کے خلاف نفرت بہت بڑھ گئی تھی، اس لیے وہ اس نفرت کو ختم کرنے کے لیے اس طرح کے دعوے کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”خیبر پختونخوا میں مولانا نے عمران خان کی بھرپور مخالفت کی، جس کی وجہ سے وہاں ان کے خلاف نفرت بڑھی۔ بالکل اسی طرح مولانا کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جی ایچ کیو کے قریب رہے، جس کی وجہ سے عسکریت پسند تنظیمیں ان کے خلاف ہو گئیں۔‘‘
سہیل وڑائچ کے مطابق مولانا کے تازہ بیانات اس بات کی کوشش ہے کہ اس نفرت کو کم کیا جائے، ” کیونکہ اس نفرت کی وجہ سے انہیں انتخابات میں شکست بھی ہوئی اور وہ بھرپور طریقے سے اپنی انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکے۔‘‘
ن لیگ کی دھوکہ بازی اور مولانا کے سیاسی مقاصد
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ مولانا کا غصہ ن لیگ کی دھوکے بازی کا جواب ہے، جس کی وجہ سے مولانا کے سیاسی عزائم خاک میں مل گئے۔ جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر حافظ حسین احمد، جو مولانا کی پالیسیوں کے شدید ناقد رہے ہیں، نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جب مولانا نے لانگ مارچ نکالا تھا، میں نے اس وقت کہا تھا کہ مسلم لیگ نون ہمیں استعمال کرے گی اور پھر ہمیں نظر انداز کر دیا جائے گا۔‘‘
حافظ حسین احمد کے مطابق لانگ مارچ کے وقت مولانا سے صدارت کا وعدہ بھی کیا گیا تھا، ”اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ پنجاب اور کے پی میں جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں کی حمایت کی جائے گی لیکن ن لیگ نے تمام ہی معاملات پر مولانا فضل الرحمن کو دھوکہ دیا۔‘‘حافظ حسین احمد کے مطابق افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت جن لوگوں نے مولانا کی اس پالیسی پر تنقید کی انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا، ”کیا مولانا کو یہ نظر نہیں آتا کہ ن لیگ نے جاوید ہاشمی، شاہد خاقان، غوث علی شاہ اور دیگر کے ساتھ کیا کیا۔ وہ لوگوں کو استعمال کرتے ہیں اور مولانا کو بھی استعمال کیا گیا۔‘‘
قربانیوں کے باوجود مولانا سائیڈ لائن کر دیے گئے
صحافی اور اینکر پرسن فریحہ ادریس حافظ حسین احمد کی اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ نے جو دوبارہ اقتدار حاصل کیا، اس کے لیے مولانا نے بہت جدوجہد کی۔ ان کے دھرنے کی وجہ سے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت ملی اور مولانا کے کارکنان ہمیشہ ن لیگ کے جلسوں کو بڑے اجتماع میں بدل دیتے تھے۔‘‘ فریحہ ادریس کے مطابق مولانا نے نواز شریف کا بہت مشکل وقت میں ساتھ دیا، ”اور اب ان کو محسوس ہوتا ہے کہ انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔‘‘
مولانا پر الزامات بے بنیاد ہیں
جمیعت علماء اسلام کے ترجمان محمد اسلم غوری کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے انکشافات پر اعتراضات اٹھانے والے بالکل بے بنیاد طرح کے الزامات لگا رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ مولانا یہ سب کچھ صدارت حاصل کرنے کے لیے کر رہے۔ صدارت کے لیے آج بھی لوگ منتیں کر رہے ہیں لیکن ان کا ایک اصولی موقف ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور یہ دھاندلی اسٹیبلشمنٹ نے کی ہے۔‘‘
نئے انتخابات کرائے جائیں
محمد اسلم غوری کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے لاتعلقی کرے اور صرف اپنی توجہ اس ذمہ داری پر مرکوز کرے جس کا آئین اسے کہتا ہے، ”ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک میں انتخابات میں بڑے پیمانے پہ دھاندلی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ نہیں ملا اور ایک معلق پارلیمنٹ معرض وجود میں آئی ہے۔ اس لیے انتخابات دوبارہ کرائے جائیں اور اس میں اسٹیبلشمنٹ کی کسی بھی طرح کی مداخلت نہ ہو۔‘‘
کیا مولانا کے خلاف دھاندلی ہوئی ہے؟
اس سوال پر فریحہ ادریس کا خیال ہے کہ کیونکہ مولانا اپنے حلقے کی عوام سے رابطے میں نہیں رہے، اس لیے انہیں شکست ہوئی ہے، ”پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور پی ٹی آئی کے علی امین گنڈاپور دونوں اپنے حلقے کی عوام سے رابطے میں رہے ہیں اور ان کو ملنے والے ووٹ بھی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘
سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ مولانا کے ووٹ چوری نہیں کیے گئے ہیں، ”میرا خیال ہے کہ انہیں واضح شکست ہوئی ہے اور اس میں دھاندلی کا کوئی عنصر نہیں ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;