ٹرمپ کے نام سے منسوب اسرائیلی بستی “ٹرمپ ہائٹس” کے باشندے نو منتخب صدرکا خیرمقدم کرتے ہوئے امید کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارت میں واپسی، گولان کی پہاڑیوں میں واقع اس چھوٹی، دور افتادہ بستی میں نئی روح پھونگ دے گی۔
اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران، ٹرمپ گولان پر اسرائیل کے کنٹرول کو تسلیم کرنے والے پہلے اور واحد غیر ملکی رہنما بن گئے، جسے اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں شام سے چھین لیا تھا۔ اسرائیل نے اس بیرونی چوکی کو ان کے نام سے منسوب کرکے ان کا شکریہ ادا کیا۔
لیکن 2019 کی اس تقریب کے بعد نئے رہائشیوں کی بڑے پیمانے پر آمد کبھی نہیں ہوئی، اور صرف دو درجن خاندان ٹرمپ ہائٹس، یا عبرانی زبان میں “رامات ٹرمپ” میں رہتے ہیں۔ یہاں ملازمت کے مواقع محدود ہیں، اور لبنان میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف اسرائیل کی ایک سال سے زیادہ طویل جنگ نے کمیونٹی میں تنہائی کے احساس کو بڑھا دیا ہے۔
ٹرمپ کے انتخاب نے کمیونٹی میں امید پیدا کی ہے کہ اب وہاں مزیداسرائیلی آبادہوں گے اور سیکیورٹی میں بہتری کے لیے مزید فنڈنگ بھی دستیاب ہوگی۔
ٹرمپ ہائٹس کے کمیونٹی مینیجر، یارڈن فریمین نے کہا، “ہو سکتا ہے کہ اس سے آگاہی میں اضافہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ یہاں مدد کرنے اور یہاں اور ہمارے بچوں کی مدد کے لیے کچھ تعاون ہو۔”
گولان کی علاقائی کونسل کے سربراہ، اوری کالنر نے زمین کے درجنوں پلاٹ دکھائے، جہاں نئی اسفالٹ سڑکوں، اسٹریٹ لائٹس اور یوٹیلیٹی لائنوں سے بھرے ہوئے ہیں، جنہیں رہائشیوں نے مستقبل میں رہائش کے لیے تیار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی نےیقینی طور پر اس شہر کو شہ سرخیوں میں جگہ دی ہے ۔
کالنر ایک ایسے دھاتی مجسمے کے ساتھ کھڑے تھے ، جو امریکہ اور اسرائیل کی علامت ہے۔
کالنر نے کہا، “گولان کمیونٹی مضبوط اور لچکدار ہے، اور جو لوگ یہاں آنا اور رہنا چاہتے ہیں وہ ایک ہی خاصہ رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ان مشکل وقتوں پر قابو پالیں گے اور آگے بڑھتے رہیں گے۔”
علاقے کی تاریخ
1967 کی جنگ میں شامیوں کے فرار کے بعد ان کے دیہاتوں کے کھنڈرات میں گھرا یہ قصبہ ، قصبہ وادی حولہ کے اوپر واقع ہے، جہاں اسرائیل نے لبنان میں اپنی لڑائی کے لیے ٹینک، توپ خانہ اور فوج جمع کر رکھی ہے۔ وادی کے بیشتر قصبوں کو خالی کرا لیا گیا ہے۔
ٹرمپ ہائٹس لبنان اور شام سے صرف 12 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔آنے والی کسی بھی فائرنگ کے الرٹ کے بعد رہائشیوں کو کسی بم شیلٹر میں جانے کے لیے لگ بھگ تیس سیکنڈ ملتے ہیں۔
اسرائیل نے 1981 میں ایک اسٹریٹجک اہمیت والی سطح مرتفع گولان کا اپنے ساتھ انضمام کیا جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔
یہ صورتحال مارچ 2019 میں اس وقت تبدیل ہو گئی جب ٹرمپ نے بغیر اطلاع کے ٹویٹ کی کہ امریکہ اسرائیل کے علاقے پر کنٹرول کو “مکمل طور پر تسلیم” کرے گا۔
ان کے اس اعلان کی عالمی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی، جو گولان کو شام کا مقبوضہ علاقہ اور اسرائیل کی بستیوں کو غیر قانونی سمجھتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے فیصلے کو برقرار رکھا، لیکن امریکہ ابھی تک اسرائیل کے الحاق کو تسلیم کرنے والا واحد ملک ہے۔
کالنر نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ اب یورپی ممالک کو وہاں اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کرنے پر آمادہ کریں گے۔
اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق، گولان میں لگ بھگ 50 ہزارلوگ آباد ہیں جن میں سے تقریباً نصف یہودی اسرائیلی اور باقی آدھے عرب دروز ہیں، جن میں سے اکثرخود کو اب بھی زیر قبضہ شامی شہری سمجھتے ہیں۔
اسرائیل نے گولان میں بستیوں کی حوصلہ افزائی اور فروغ دیا ہے، اوردروز باشندے کھیت اور سیاحت اور ریستوراں کا سیکٹر چلاتے ہیں جو اسرائیلیوں میں مقبول ہے۔ لیکن یہ علاقہ تل ابیب میں اسرائیل کے اقتصادی مرکز سے کئی گھنٹے کے فاصلے پر دور دراز واقع ہونے کی وجہ سے ترقی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
یہ معاشی مشکلات جنگ کے دوران مزید بڑھ گئی ہیں ۔ 28 جولائی کو، تقریباً 20 کلومیٹر دور مجدل شمس شہر میں فٹ بال کے میدان میں ایک راکٹ کے داغے جانے سے 12 ڈروز بچے ہلاک ہو گئے تھے ۔ اسرائیل نے اس کے کئی ماہ بعد لبنان پر حملہ کیا۔
جون 2019 میں، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ ہائٹس کی افتتاحی تقریب کی قیادت کی۔ اس وقت کے امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے کہا کہ یہ تقریب ٹرمپ کی سالگرہ کے چند دن بعد ہوئی اور ان کاکہنا تھا،”میں اس سے زیادہ مناسب اور خوبصورت سالگرہ کے تحفے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔”
صدر کے طور پر، ٹرمپ نیتن یاہو کے قریب تھے۔
گولان کو تسلیم کرنا ان سفارتی تحائف کے سلسلے میں سے ایک تھا جو ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسرائیل کو دیا تھا۔ ان میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور امریکی سفارت خانے کو متنازعہ شہر میں منتقل کرنا، اورعرب ملکوں کے ساتھ سفارتی معاہدوں ایک سلسلہ شامل تھا جو “ابراہام اکارڈز” کے طور پر معروف ہے۔
نیتن یاہو کے پہلی مدت کے دوران ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات تھے لیکن جب انہوں نے جو بائیڈن کو ان کی 2020 کی فتح پر مبارکباد دی تو سابق صدر ان سے ناراض ہوئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے منگل کو اعلان کیا کہ وہ منتخب صدر کو فون کرنے اور ان کی جیت پر مبارکباد دینے والے پہلے غیر ملکی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔
اسرائیلی رہنما نے ایک بیان میں کہا “تاریخ کی سب سے بڑی واپسی پر مبارکباد!” انہوں نے کہا وائٹ ہاؤس میں آپ کی تاریخی واپسی امریکہ کے لیے ایک نئی شروعات اور اسرائیل اور امریکہ کے درمیان ایک بار پھر عظیم اتحادکا عہد ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔