ملیٹھی طب میں صدیوں سے مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے، اسے پیٹ کے امراض خصوصاً معدے اور آنت کے زخم (السر) کے لئے بہت مفید خیال کیا جاتا ہے۔
یہ کھانسی کا بھی ایک آزمودہ روایتی علاج ہے۔
عموماً خشک اور سرد ہواؤں میں گلے کی خراش اور کھانسی کی تکلیف لاحق ہو جاتی ہے،اگر ملیٹھی کا سفوف پان میں ملا کر اس کی پیک کو نگل لیا جائے،تو فوری افاقہ ہوتا ہے۔
ملیٹھی کا اصل جزو گلائی کون کہلاتا ہے،جبکہ طب میں اس کا ست رُب کہلاتا ہے۔اس لئے یہ ست رب السوس کہلاتا ہے۔
کھانسی کے لئے یہ بہت مفید ہے۔
یہ ست کھانسی کے شربت میں خوب استعمال ہوتا ہے۔
یہ حلق کو تر اور نرم کرتی اور بلغم کا اخراج کرتی ہے۔
ملیٹھی کو عربی زبان میں اصل السوس،سندھی میں مٹھی کاٹھی یعنی میٹھی لکڑی،فارسی میں بیخ مہک اور انگریزی میں Liquorice کہا جاتا ہے۔
یہ ایک پودے کی جڑ ہے،جو زمین میں گہرائی کے ساتھ ہوتی ہے۔
اس کا پودا چار فٹ تک بلند ہوتا ہے،جبکہ اس کے پھول نیلے رنگ کے ہوتے ہیں اور رومی آب و ہوا کے خطے میں پیدا ہوتا ہے۔
اس کی زرد رنگ جڑ شکر سے پچاس گنا زائد میٹھی ہوتی ہے۔
چین،روس اور بحیرہ روم کے ممالک میں اس کی کاشت طویل عرصے سے ہو رہی ہے۔
اسپین میں کا ست تیار کیا جاتا ہے،جسے عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔
اب فیصل آباد میں بھی اس کی کاشت ہو رہی ہے۔
یورپ و چین اور انگلستان میں بھی اس کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ان ممالک میں ملیٹھی کا سوف دیگر ادویہ کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔
اس سے نہ صرف معدے اور دانتوں کی سوزش اور زخم رفع ہوتے ہیں،بلکہ آنتوں کی حرکت تیز ہو کر قبض ختم ہوتی ہے۔
چین کے شمالی علاقوں میں ملیٹھی اور اس کے مرکبات کو مفید جوان رکھنے کا ٹانک کہا جاتا ہے۔
طبِ یونانی میں ملیٹھی کا استعمال صدیوں سے ہو رہا ہے۔
طبِ یونانی کے ماہرین اسے استعمال کرنے سے قبل چھیلنے کی ہدایت کرتے ہیں،کیونکہ ان کے مطابق سانپ اس پر اپنا پھن رگڑتا ہے۔
اسے چھیل کر استعمال کرنے سے گویا اوپر کی چھال اُتر جاتی ہے اور اس طرح اس کے زہر آلود ہونے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔
ملیٹھی کا ذائقہ میٹھا بلکہ بہت میٹھا ہوتا ہے۔
اسے بطور مٹھاس زیادہ مقدار میں استعمال نہیں کرنا چاہیے،اس کی یہ مٹھاس گلسیر ہیزین نامی جوہر کی وجہ سے ہے۔
جڑ میں یہ مٹھاس چھ سے آٹھ فیصد تک ہوتی ہے اور الگ کرنے پر سفید چمک دار سفوف کی صورت میں نکلتی ہے۔
اس سفوف میں کیلشیم اور گیلسر ہیزک ایسڈ،پوٹاشیم اور نمک موجود ہوتا ہے۔
ملیٹھی میں شکر،نشاستہ 29 فیصد گوند پروٹین اور چکنائی کے علاوہ Tanin بھی پایا جاتا ہے،جو زیادہ تر جڑ کی چھال میں ہوتا ہے۔
اس میں فراری تیل کے علاوہ زرد رنگین مادہ بھی ہوتا ہے۔
طب و اطبا کے نزدیک ملیٹھی سکون آور،قبض کشا اور پیشاب آور خصوصیت کی حامل ہے۔کھانسی میں اس کا استعمال بہت مفید ہے۔
یہ بلغم کو اعتدال کے ساتھ پتلا کر کے اخراج کرتی ہے۔
پیاس کی زیادتی اور معدے کی سوزش میں فائدہ مند ہے۔
عضلات،پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے اور حلق کی خشکی دور کر کے تر کرتی ہے۔
سینے سے بلغم کا اخراج کرتی ہے۔
کئی مغربی مالک میں اسے گلے کی خراش اور کھانسی کے لئے پانی میں جوش دے کر بطور چائے پیا جاتا ہے۔
یورپ میں نباتی علاج کے معالج اسے آنتوں کی سوزش اور زخم کے ساتھ بطور پیشاب آور استعمال کرتے ہیں اور نزلی رطوبت کے اخراج کے لئے مفید خیال کرتے ہیں لندن (انگلستان) کے معروف نباتاتی معالج ڈاکٹر میلون کا یہ نسخہ کھانسی کے لئے انتہائی موٴثر ہے۔
ایک پین میں السی کے بیج 12 گرام،ملیٹھی 25 گرام،عمدہ کشمش 120 گرام اور تازہ پانی 2 لیٹر ڈال کر دھیمی آنچ پر ڈھک کر اتنا پکائیں کہ پانی کی مقدار نصف رہ جائے۔اب اس میں اچھی قسم کا گڑ 500 گرام شامل کر کے چھان کر قوام درست کر لیں۔رات سونے سے قبل ایک پیالی گرم پانی میں یہ شربت دو چائے کے چمچ ملا کر تھوڑا تھوڑا چسکی لے کر پئیں۔
کھانسی کی شکایت رفع ہو جائے گی۔
ایک امریکی نباتات معالج ڈاکٹر جیمس ڈیوک کے مطابق ملیٹھی میں معدے اور آنتوں کے زخم ٹھیک کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ سرطان دور کرنے کی بھی خصوصیت پائی جاتی ہے۔
امریکا میں سرطان کے ایک تحقیقی ادارے نے بھی ملیٹھی کو اپنی تحقیق میں شامل کر رکھا ہے۔اب تک کی جانے والی تحقیق کے مطابق کا ایک اہم جز Triterpenoids سرطان کا مفید علاج ثابت ہو سکتا ہے،کیونکہ یہ جسم میں پروسٹا گلینڈین کی تیاری کا سلسلہ روک دیتے ہیں۔
پروسٹا گلینڈین ہارمون جیسے فیٹی ایسڈ ہوتے ہیں،جو سرطانی خلیات بننے کا عمل تیز کر دیتے ہیں۔
ملٹھی کا جز جسم پر سرطان کا سبب بننے والے اجزاء کا حملہ روک سکتے ہیں۔تحقیق کے نتیجے میں ان اجزاء کی ان خاصیتوں کا اندازہ ہوا ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملیٹھی کا استعمال کم مقدار میں کرنا چاہیے۔
خصوصاً بلڈ پریشر کے مریضوں کو اس کے استعمال سے قبل اپنے معالج سے مشورہ کرنا چاہیے،کیونکہ ملیٹھی میں تحقیق کاروں کے مطابق کیمیائی جوہر گلیسر ہیزن کی زیادتی سے جسم میں پوٹاشیم کی مقدار کم اور سوڈیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
اس لئے پوٹاشیم کم ہونے سے بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
استادِ محترم شہید پاکستان حکیم محمد سعید معدے اور آنتوں کے زخم کے لئے اصل السوس سائیدہ ہمراہ شربت بادیان دو چمچ صبح نہار منہ استعمال کرواتے تھے اور اس کے مفید نتائج سامنے آئے۔
اس کے بعد اسے سوسی کے مرکب کے نام سے ہمدرد نے بنایا ہے،جو شربتِ بادیان کے ساتھ صبح نہار منہ استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔