گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقات میں نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔ گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کب اور کس حکومت نے کیا؟ سرکاری دستاویز میں تفصیلات سامنے آگئیں۔
دستاویزات کے مطابق 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنےکی سمری شہباز شریف کی پی ڈی ایم حکومت میں سامنے آئی اور 13 جولائی2023 کو فوڈ سکیورٹی کے وزیر نے10 لاکھ ٹن گندم کی سرکاری طور پر خریدنے کی سمری منظور کی۔
گندم کو اسٹریٹجک ذخائر کے طور پر لانے کا فیصلہ ہوا مگر 8 اگست 2023 کو ای سی سی نے سمری کو مؤخر کردیا۔
نگران حکومت میں یکم ستمبر2023 کو سمری وزیر اعظم ہاؤس بھیجی گئی اور 4 ستمبر 2023 کو وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بطور فوڈ سکیورٹی وزیر سمری کی منظوری دی۔
نگران وزیر اعظم کو بھیجی گئی سمری میں آٹے کی قیمت 5 ہزار 6 سو روپے من بتائی گئی جس کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے سرکاری اور پرائیوٹ سیکٹرکو شامل کرنے کی ہدایات آئیں۔
دستاویزات کے مطابق 12 ستمبر 2023 کو گندم درآمد کی سمری دوبارہ ای سی سی کو بھیجی گئی مگر وزارت خزانہ نےگندم سرکاری طور پر خریدنے کی حمایت نہیں کی اور کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر بہتر طریقے سے درآمد کرسکتا ہے مگر 23 اکتوبر 2023 کو ای سی سی نےگندم سرکاری طور پر درآمد کرنےکی سمری منظور کی۔
دستاویزات میں ہے کہ 24 نومبر 2023 کو ٹریڈ کارپوریشن آف پاکستان ( ٹی سی پی) نے 11 لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا ٹینڈر دیا، ٹی سی پی کے 2 ٹینڈرز دینے پر بھی کوئی بولی نہیں لگی اور گندم پرائیویٹ سیکٹر کو برآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی مگر حیرت انگیز طور پر ٹی سی پی کے ٹینڈرز پر کوئی بولی نہ لگنے کے باوجود 17 دسمبر تک 12 لاکھ ٹن گندم ملک میں آچکی تھی۔
دستاویزات کے مطابق اس کے بعد 19دسمبر 2023 کو ویٹ بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں اچانک مزید 15 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی باوجود اس کےکہ ویٹ بورڈ کے اجلاس میں یہ بتایا گیا کہ 25 جہاز پرائیوٹ گندم لے کر آ چکے ہیں اور گندم ملک میں پہنچنا شروع ہوگئی۔
23فروری 2024 کو اجلاس میں گندم برآمد کرنے کی تاریخ ایک ماہ بڑھا کر 31مارچ کردی گئی اور وفاق نے بھی مزید 15 لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد مارچ میں موجودہ حکومت کے وجود میں آنے کے بعد بھی گندم برآمد ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔