وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے گزشتہ منگل کو جو بجٹ پیش کیا اس میں این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کو خوش رکھنے کی تو بھرپور کوشش کی گئی ہے اور بہار و آندھرا پردیش کو کافی کچھ دیا گیا ہے لیکن اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں کو بڑی حد تک نظر انداز ہی کیا گیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اس ’ناانصافی‘ پر بجا طور پر چراغ پا بھی ہیں لیکن حکومت پر اس تعلق سے لگے جانبداری کے الزامات کو اگر نظر انداز بھی کر دیں تب بھی ایک شعبہ ایسا ہے کہ جس کو مودی حکومت کی وزیر خزانہ نے ایک مرتبہ پھر نظر انداز کیا ہے۔ یہ شعبہ تعلیم کا شعبہ ہے جس کے بجٹ کو کم کیا گیا ہے اور اس طرح ملک کے مستقبل سے بالواسطہ کھلواڑ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ تازہ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص رقم میں گزشتہ برس کے مقابلے میں کمی گئی ہے۔ یہ تخفیف تقریباً 9 ہزار کروڑ روپئے ہے۔ اس تخفیف کے پس پشت کیا اسباب رہے اس پر تو حکومت ہی روشنی ڈال سکتی ہے۔ البتہ اس کا واضح پیغام یہ ہے کہ ہمارے حکمراں نہیں چاہتے کہ نئی نسل تعلیم یافتہ ہو۔ ممکن ہے اس کے پس پشت یہ خوف کارفرما ہو کہ جب تعلیم کا معیار بڑھے گا تو پھر لوگوں کو ’اندھ بھکت‘ بنانا آسان نہ ہوگا۔ بہرحال تعلیم کے تعلق سے مودی سرکار کا ریکارڈ 2014 سے ہی خراب رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے کی ترقی پر مودی حکومت میں کبھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔