اسلام آباد ( خصوصی رپورٹ )کاروباری افراد کے تحفظات دور کرنے کیلیےنئے میکنزم پر کام شروع کر دیا گیا ،نیب اور ایف پی سی سی آئی کیا کر رہے ہیں ؟انصار عباسی نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔رپورٹ کے مطابق کاروباری طبقے کا کھویا اعتماد دوبارہ بحال کرنے اور تاجر برادری کو ماضی کی طرح کی غیر ضروری ہراسگی سے بچانے کیلئے نیب کی اعلیٰ انتظامیہ نے نئے میکنزم پر اتفاق کیا ہے جو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (ایف پی سی سی آئی) کے ساتھ مشاورت کے بعد تشکیل دیا گیا ہے۔ نئے میکنزم پر کام کیا جا رہا ہے جس کے تحت ایف پی سی سی آئی نیب کے ساتھ مل کر کاروباری کمیونٹی کیلئے سہولت کا ماحول پیدا کرے گی اور نیب کیسز اور انویسٹی گیشنز کے حوالے سے کاروباری افراد کے تحفظات اور مسائل کو زیر بحث لایا جائیگا۔ نیب چیئرمین کے ساتھ 16 جنوری کو ہونے والی ملاقات کے بعد ایف پی سی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ نے حال ہی میں نیب چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کو خط لکھ کر ایف پی سی سی آئی کے نمایاں رکن احمد چنائے کو کاروباری کمیونٹی کا فوکل پرسن نامزد کیا تھا تاکہ وہ نیب ہیڈکوارٹرز اسلام آباد اور چاروں صوبوں میں ریجنل آفسز کے ساتھ رابطہ میں رہیں۔ نیب بھی اپنے سینئر افسران میں سے ایک کو اپنا فوکل پرسن مقرر کرے گا تاکہ وہ احمد چنائے کے ذریعے ایف پی سی سی آئی والوں کے ساتھ رابطے میں رہے اور کاروباری کمیونٹی کے تحفظات دور کیے جا سکیں۔
رپورٹ کے مطابق سابق چیئرمین کے دور میں نیب نے سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور کاروباری افراد کو بے رحمی سے گرفتار کیا کیا،کاروباردوست ماحول کو سخت نقصان پہنچا تھا، موجودہ چیئرمین نیب کی تاجروں اور بیوروکریسی کے تحفظات دور کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ نیب اور ایف سی سی پی آئی نے اتفاق کیا ہے کہ اس میکنزم کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی کاروباری شخص کو نیب والے ماضی کی طرح غیر ضروری طور پر ہراساں نہ کریں۔ ماضی میں نیب کاروباری افراد کیخلاف ہر طرح کی شکایات پر کارروائی کرتا رہا ہے۔ نیب کے اسی رویئے کی وجہ سے ملک میں کاروبار دوست ماحول کو زبردست نقصان پہنچا جس کی وجہ سے کئی کاروباری افراد نے اپنا کاروبار دیگر ملکوں کی طرف منتقل کر دیا۔ حتیٰ کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھی نیب کے مقامی اور غیر ملکی کاروباری افراد کیساتھ سلوک کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری سے گریز کرنا شروع کر دیا تھا۔ کمیٹی میں نیب کا ایک نمائندہ بھی شامل ہے۔ دیگر صوبوں میں بھی اسی طرح کی سکروٹنی کمیٹیاں قائم کی جارہی ہیں تاکہ بیوروکریسی کے ارکان کو نیب کیسز میں غیر ضروری طور پر گھسیٹے جانے سے بچایا جاسکے۔