مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) پر ہونے والی پیش رفت تیزی سے طبی منظر نامے کو تبدیل کر رہی ہے جس کے بعد کینسر اور الزائمز جیسی موذی بیماریوں کو شکست دینے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔
اے آئی پر کام کرنے والی گوگل ڈیپ مائنڈ کے سی ای او ڈیمس حیسابس کہتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ ہم اس معاملے میں بہت قریب ہیں۔
ٹیکنالوجی پوڈ کاسٹ ہارڈ فوک میں گفتگو کرتے ہوئے ڈیمس نے کہا کہ ہم دل کی بیماری، کینسر جیسی بڑی بیماری کے لیے حقیقی معنوں میں اے آئی سے تیار کردہ پہلی دوائیں حاصل کرنے سے چند سال دور ہیں۔
آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جینس (اے جی آئی) میں آئندہ بڑی پیش رفت یہ ہوگی کہ یہ انسانوں کی طرح علمی صلاحیت حاصل کرلے گی جس سے علاج اور ادویہ سازی میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ گوگل جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں پہلے ہی نئی ادویات کی دریافت کے لیے اے آئی اور اے جی آئی کا استعمال کر رہی ہیں۔
ڈیمس کہتے ہیں کہ ہم نے ادویات بنانے والی بڑی کمپنیوں کے ساتھ ڈرگ پروگرامز پر بڑے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور انہیں امید ہے کہ آئندہ کچھ برسوں میں ہمارے پاس کلینکل ٹیسٹنگ کے لیے اے آئی سے بنی ادویات ہوں گی۔
دوسری جانب جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے بلوم برگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی سائنس دان نادیہ اکسیر سمیت کچھ ماہرین نے خبر دار کیا ہے کہ مکمل طور پر بیماریوں سے پاک دنیا وہم ہی ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بیماریوں میں ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس لیے عالمی وباؤں یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بیماریوں کے بدلتے پیٹرن کی وجہ سے ہم حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو ٹیکنالوجی آج کے حالات میں مددگار ہے وہ مستقبل میں بھی کارگر رہے گی یا نہیں۔
ان انتباہات کے باوجود صحت کی دیکھ بھال یعنی ہیلتھ کیئر پر اے آئی کا اثر پہلے سے ہی بڑھ چکا ہے۔ اے آئی سے چلنے والی مشینیں تشخیص اور علاج کو بہتر بناتی ہیں جب کہ ڈاکٹرز تصویر کے تجزیے سے لے کر لیبارٹری کے نتائج کی تشریح کرنے تک کے کام کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار کر رہے ہیں۔
تیزی سے تبدیل ہونے والی اے آئی خصوصیات کے ساتھ ڈاکٹرز اور معالجین مستقبل قریب میں تبدیلی کی لہر کی توقع کرتے ہیں۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول میں بائیومیڈیکل انفورمیٹکس کے چیئر زاک کوہانے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جس طرح ہم ادویات لیتے ہیں اور صحت کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اے آئی میں انسانی صحت کی حالت کو بہتر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔
کوہانے نے کئی ایسے شعبوں کی نشاندہی کی جہاں اے آئی تشخیص کو تیز کر سکتی ہے۔ ایسے علاج تجویز کر سکتی ہے جسے ایک ڈاکٹر نظر انداز کرسکتا ہو۔ یہاں تک کہ ٹیومر کے منفرد جینیاتی میک اپ جیسے عوامل کی بنیاد پر علاج کے بارے میں مریض کے ردِعمل کی پیش گوئی بھی کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ممکنہ طور پر اے آئی ٹولز کا عروج دیکھیں گے جو مریض کے ریکارڈ میں بتائی جانے والی تبدیلیوں اور اتار چڑھاؤ کو ٹریک کرنے کے قابل ہوں گے اور یہ کسی موجودہ حالت کی بعض پیچیدگیوں کے لیے خطرے کی نشاندہی کر سکتے ہوں گے۔
البتہ یہ پیشرفت دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ چیلنجز بھی لائے گی۔ نادیہ اکسیر جیسے ماہرین اے آئی کے پھیلاؤ میں اضافے سے ہیلتھ کیئر کے موجودہ فرق کے خطرے کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔
اسی طرح اس شعبے میں تیز پیش رفت میں ریگولیٹری فریم ورکس رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔
کوہانے کا کہنا ہے کہ بالآخر اے آئی کی ایک منزل ہے اور ہم اس ٹول کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں وہ انسانیت، مجموعی طور پر معاشرے پر منحصر ہے۔ ان کے بقول بہت سے فوائد حاصل کرنے کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے اے آئی ایک ذریعہ ہے لیکن تمام بیماریوں کا علاج نہیں ہے۔