|
نو مارچ کی صبح قومی اسمبلی پہنچا تو ایوان ,صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ اسٹیشن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ اسپیکر کی کرسی پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس براجمان تھے جنہیں صدارتی انتخاب کے لیے پریزائیڈنگ افسر تعینات کیا گیا تھا۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی کافی تعداد اسمبلی ہال پہنچ چکی تھی اور صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ شروع کرنے سے قبل پریزائیڈنگ افسر نے اراکین کو بیلٹ پیپر باکس دکھائے اور غلط نشان لگنے کی صورت میں دوسرا بیلٹ پیپر فراہم کرنے کے متعلق آگاہی دی۔
بیلٹ باکس سیل کرنے کے بعد صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ شروع ہوئی تو پہلا ووٹ پیپلز پارٹی کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ نے کاسٹ کیا۔ جس کے بعد کاؤنٹر ون سے اراکین کے حروفِ تہجی کے مطابق ووٹ کرنے کے لیے نام پکارے جانے لگے۔
سینیٹ کا ایوان کل 100 اراکین پر مشتمل ہے مگر سینیٹ کی 11 نشستیں خالی ہیں جس کے باعث سینیٹ سے کل 89 اراکین کو ووٹ کا حق استعمال کرنا تھا۔ اس طرح قومی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد تو 336 ہے مگر آٹھ مارچ تک صرف 309 اراکین حلف اٹھا سکے تھے۔ اس لیے صدارتی انتخاب کے لیے 309 اراکینِ قومی اسمبلی ہی ووٹ کرنے کے اہل تھے۔
قومی اسمبلی کے ہال میں جو پولنگ اسٹیشن کے طور استعمال ہو رہا تھا، سنی اتحاد کونسل کے اراکین عمران خان کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید ان سے نعرے لگوا رہے تھے۔
سنی اتحاد کونسل کے رکن ووٹ کاسٹ کرنے اور بیلٹ پیپر باکس میں ڈالنے کے بعد عمران خان کے حق میں نعرے لگوانے کے بعد اپنی نشست پر جا رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کے وہ نعرے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے بالکل قریب رکھے بیلٹ باکس کے پاس کھڑے ہوکر لگائے جا رہے تھے۔
سینیٹر عون عباس اور فلک ناز نے ووٹ کاسٹ کرتے وقت عمران خان کی تصویر لہرائی۔ عمر ایوب سمیت اکثر سنی اتحاد کونسل کے اراکین عمران خان زندہ باد کے نعرے لگانے کے بعد اپنی نشست پر جا رہے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور وزیرِ اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کے ہال میں داخل ہوئے تو انہیں مخالف نعروں کا سامنا کرنا پڑا۔ سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے ووٹ چور، مینڈیٹ چور کے نعرے لگائے جب کہ (ن) لیگ اراکین نے گھڑی چور کے نعروں سے ان کا جواب دیا۔
ووٹ کے لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا نام جیسے ہی پکارا گیا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے چور چور کے نعرے لگائے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان شیر شیر کے نعرے لگاتے رہے۔
اس طرح کی نعرے بازی نواز شریف کا نام پکارے جانے کے وقت بھی ہوئی۔ مگر نواز شریف اور شہباز شریف ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد ایوان سے چلے گے۔
جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی نے صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا اور ان کے اراکین ایوان میں بھی نہیں آئے۔ پولنگ کے موقع پر مہمانوں کی گیلریاں تقریباً خالی تھیں مگر گیلری میں آصف زرداری کی دونوں بیٹیاں بختاور بھٹو، آصفہ بھٹو اور داماد ووٹنگ کا عمل دیکھتے رہے۔
صدارتی پولنگ کے لیے ہونے والے اجلاس میں سب کی نگاہوں کا مرکز سینیٹر کرشنا کماری بنی رہیں جن کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ کولھی قبیلے کی خواتین کا روایتی لباس زیب تن کیے ہوئے تھیں اور روایتی چوڑیاں کہنیوں تک پہن رکھی تھیں۔
اسی طرح پی ٹی آئی کی سینیٹر ڈاکٹر زرقہ سہروردی نے پی ٹی آئی کے پرچم والا لباس پہن رکھا تھا۔ جہانگیر ترین کی بہن سینیٹر سیمی ایزدی نے پی ٹی آئی پرچم دوپٹے کے ساتھ پہنا تھا۔ پی ٹی آئی کی سینیٹر ڈاکٹر مہرتاج روغانی نے بھی پی ٹی آئی کے پرچم جیسا لباس اور دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔
صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کے دوران جب وجیہ قمر کا نام ووٹ کے لیے پکارا گیا تو سنی اتحاد کونسل کی خواتین ارکان نے ان کے خلاف ‘لوٹی لوٹی’ کے نعرے لگائے اور وجیہ قمر کے ووٹ کاسٹ کر کے اپنی نشست پر بیٹھنے کے بعد تک یہ نعرے لگائے جاتے رہے۔
وجیہ قمر سابق اسمبلی میں پی ٹی آئی کی رکن تھیں اور اس بار وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر رکن بنی ہیں۔
پولنگ کے دوران اس وقت صورتِ حال دلچسپ ہوگئی جب بینظیر بھٹو کی زندگی میں ان کے لیے لگنے والا مشہور نعرہ ‘یااللہ یارسول’ عمران خان کے لیے سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے لگانا شروع کیا تو پیپلزپارٹی کے اراکین کو شاید وہ نعرہ چوری یا چھن جانے کا خوف محسوس ہونے لگا۔ جیسے ہی سنی اتحاد کے اراکین ‘یااللہ یارسول عمران خان بے قصور’ کا نعرہ لگاتے تو پیپلزپارٹی کے اراکین اس کا جواب بینظیر بے قصور کے نعرے سے دیتے۔
خیبر پختونخوا سے جنرل نشست پر کامیاب ہونے والی سنی اتحاد کونسل کی رکن شاندانہ گلزار ووٹ کے لیے آئیں تو ان کے ساتھی اراکین ان کے لیے ‘شیرنی’ کے نعرے لگاتے رہے۔
ماضی میں بھی رکن اسمبلی رہنے والے شیخ وقاص اس بار الگ گیٹ اپ میں دکھائی دیے، وہ پہلے روزانہ شیو کر کے آنے والے اراکین میں سے تھے مگر اب نہ صرف انہوں نے داڑھی بڑھا دی ہے بلکہ پونی بھی کر رکھی ہے۔ شیخ وقاص نے بھی ووٹ ڈالنے کے بعد عمران کے حق میں نعرے لگائے اس طرح ووٹنگ کا عمل مکمل ہوگیا جس کے بعد بیلٹ باکس کھول کر گنتی کر کے نتائج کا اعلان کیا گیا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے آصف زرداری کو 255 اور محمود خان اچکزئی کو 119 ووٹ ملے۔ اس کے کچھ دیر بعد الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی، سینیٹ کے ساتھ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے بھی نتائج کا اعلان کر دیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ صدارتی انتخاب کے نتیجے کے مطابق آصف زرداری نے 411 ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مدِ مقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی نے 181 ووٹ حاصل کیے۔