پاکستان میں انتخابات میں قومی اسمبلی کی 12 جنرل نشستوں پر خواتین بھی کامیاب ہوئی ہیں۔ اِن میں سب سے زیادہ تحریکِ انصاف کی حمایت کامیاب ہونے والی پانچ آزاد امیدوار ہیں۔ اس کے بعد مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کی چار خواتین امیدوار ایوان میں پہنچی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی دو اور متحدہ قومی موومنٹ کی ایک خاتون امیدوار نے کامیابی اپنے نام کی ہے۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے لاہور کے حلقہ این اے 119 سے کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ (ن) کی نوشین افتخار کو سیالکوٹ کے این اے 73، شذرہ کھرل کو ننکانہ صاحب کے حلقہ این اے 112 اور این اے 158 وہاڑی سے تہمینہ دولتانہ کو کامیابی ملی۔
تحریکِ انصاف کو انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے کے سبب سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت حالیہ انتخابات میں بلے کے انتخابی نشان پر حصہ لینے کا موقع نہ مل سکا۔ تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ کی جانب سے بلے کا انتخابی نشان لیے جانے سے قبل ہی اپنے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی الیکشن کمیشن میں جمع کرائے تھے۔ اس لیے فیصلہ آنے کے بعد پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔
تحریکِ انصاف کی حمایت سے سب سے زیادہ پانچ خواتین امیدوار قومی اسمبلی کی رکن بن ہیں۔ ان میں پشاور کے این اے 30 سے شاندانہ گلزار خان، حافظ آباد کے این اے 67 میں انیقہ انور چیمہ، وہاڑی کے این اے 156 سے عائشہ نذیر جٹ، لیہ کے این اے 181 سے عنبر مجید اور ڈیرہ غازی خان کے این اے 185 سے زرتاج گل نے کامیابی اپنے نام کی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کی جو دو خواتین جنرل نشستوں پر ایوان میں پہنچی ہیں ان میں خیرپور کے این اے 202 سے نفیسہ شاہ اور سانگھر کے این اے 209 سے شازیہ مری شامل ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کی آسیہ اسحاق صدیقی کراچی میں ضلع کورنگی کے این اے 232 سے جیتنے میں کامیاب رہی ہیں۔
پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بھی خواتین براہِ راست الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئی ہیں۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت سیاسی جماعتیں ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی کم از کم پانچ فی صد نشستوں پر خواتین امیدوار کھڑے کرنے کی پابند ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سیالکوٹ سے کامیاب ہونے والی نوشین افتخار مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اُنہیں الیکشن سے صرف تین ہفتے قبل 15 جنوری کو اپنی جماعت کی جانب سے ٹکٹ ملا تھا۔
ان کے بقول الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کے مطابق چھ فروری انتخابی مہم کا آخری روز تھا۔ اِس دوران اُنہوں نے 305 سیاسی پروگرام منعقد کیے جن میں جلسے، کارنر میٹنگز، ملاقاتیں اور گھر گھر انتخابی مہم چلانا شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نوشین افتخار نے کہا کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کے حلقہ میں نواز شریف کا ووٹ بینک ہے۔ لیکن ایک مذہبی گھرانے سے تعلق کے ناطے اُن کا اپنا بھی ووٹ بینک موجود ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ووٹر کسی بھی امیدوار کی شخصیت اور اُس کے کردار کو بھی مدِ نظر رکھتے ہوئے ووٹ دیتے ہیں۔
نوشین افتخار اِس سے قبل بھی اِسی حلقہ سے قومی اسمبلی کا ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کر چکی ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کی رکن آسیہ اسحاق کہتی ہیں کہ اُن کا تعلق ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے ہے۔ شہری علاقوں کے لوگوں میں خواتین امیدواروں سے متعلق سوچ میں بہتری آئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ معاشرے میں یہ آرا بھی پائی جاتی ہے کہ خواتین کرپشن نہیں کرتیں۔
آسیہ اسحاق نے سیاسی سفر 2002 کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے حصہ لے کر شروع کیا تھا لیکن وہ اس وقت کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔ بعد ازاں وہ 2007 میں مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوئیں جب کہ 2012 میں وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا حصہ بنیں۔ 2016 میں جب مصطفیٰ کمال نے متحدہ قومی موومنٹ سے الگ ہو کر پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) بنائی تو وہ اس میں شامل ہو گئیں۔ اب پی ایس پی متحدہ قومی موومنٹ میں ضم ہو چکی ہے تو وہ بھی ایم کیو ایم کا حصہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران اُنہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ یہ معاشرے کی حقیقت ہے کہ کچھ شدید مذہبی لوگ ہیں جن کے لیے انتہا پسند کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ایسے افراد کی رائے میں خواتین کو گھروں میں رہنا چاہیے۔ یہ افراد نہ بات کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور نہ انہوں نے کوئی بات سمجھنی ہوتی ہے۔
آسیہ اسحاق نے مزید کہا کہ جب وہ انتخابی مہم پر جاتی تھیں تو اکثر لوگوں بات کرتے تھے کہ اچھا اب وہ ایک خاتون کو ووٹ دیں گے یہ تو مردوں والا کام ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جیت کے بعد کسی بھی امیدوار کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے جس میں یا تو ریاضت قبول ہو جاتی ہے یا پھر زندگی بھر کی عبادت غارت ہو جاتی ہے۔
عائشہ نذیر جٹ نے تحریکِ انصاف کی حمایت سے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا تو اُنہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
وائس آف امریکہ سے اُن کے ترجمان نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اُنہیں اپنے مخالف امیدوار کی طرح آزادانہ انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں ملی۔ اُن کی زیادہ تر انتخابی مہم ٹیلی فون، سوشل میڈیا اور گھروں کے اندر میل ملاپ پر ہی مبنی رہی۔
عائشہ نذیر جٹ نے 2018 کے انتخابات میں آزاد حیثیت میں حصہ لیا تھا۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔
وہ بورے والا کی سیاسی شخصیت چوہدری نذیر جٹ کی صاحب زادی ہیں۔
اُنہوں نے اپنے مدِ مقابل مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نذیر آرائیں کو کم وبیش 20 ہزار ووٹ سے شکست دی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق حالیہ عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کل 882 خواتین امیدواروں نے حصہ لیا جن میں سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر 312 جب کہ صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر 573 خواتین امیدوار میدان میں تھیں۔
پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی اقدار پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کی رائے میں خواتین کا بڑی تعداد میں کامیابی کا ایوان تک آنا خوش آئند بات ہے جس سے یہ خواتین عملی سیاست میں متحرک بھی رہیں گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ براہِ راست جیت کر آنے والی خواتین کے متحرک نہ ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں کیوں کہ ان کے حلقے کے لوگ اُنہیں متحرک رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ملک کی روایات کچھ ایسی ہیں کہ خواتین کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ اُن کی رائے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی نہیں بلکہ جب خواتین اسمبلیوں میں پہنچتی ہیں تو یہی سلوک برتا جاتا ہے۔ اُن کی رائے میں اگر کوئی خاتون رکن اسمبلی خود کو ایوان میں منوانا چاہے تو اُسے مرد ارکان کی نسبت خود کو زیادہ قابل ثابت کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان لگ بھگ نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ البتہ انتخابی عمل میں ان کا حصہ بہت کم ہے۔
انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے ’فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک‘ (فافین) کی رپورٹ کے مطابق 2018 کے عام انتخابات کی نسبت حالیہ انتخابات میں خواتین ووٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں الیکٹیبلز کا لفظ ماضی قریب میں تواتر سے استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں الیکٹیبلز خواتین کا ذکر کیا جائے تو چند گنے چنے نام ہی سامنے آتے ہیں جن میں سیدہ عابدہ حسین، صغرٰیٰ امام، تہمینہ دولتانہ، سائرہ افضل تارڑ، حنا ربانی کھر، ثمینہ خالد گھرکی، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، شازیہ مری اور نفیسہ شاہ شامل ہیں۔
مبصرین کی رائے میں ان تمام خواتین کی کامیابی میں اُن کے خاندان کا اثر و رسوخ اور برادری کا کردار اہم رہا ہے۔
خواتین اور اہم عہدے
پاکستان میں خواتین اہم عہدوں پر فائز رہی ہیں جن میں بے نظیر بھٹو وزارتِ عظمٰی، فہمیدہ مرزا اسپیکر قومی اسمبلی اور حنا ربانی کھر وزیرِ خارجہ رہی ہیں۔ البتہ ان تمام کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔
ایم کیو ایم کی رہنما آسیہ اسحاق کہتی ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں کام صرف تھانہ کچہری کے مسائل کا حل، گٹروں کے ڈھکن لگانے، پانی کے کنکشن دینے اور بجلی کے میٹر لگوانے کو سمجھا جاتا ہے۔
ان کے بقول ایسے کاموں کو مرد زیادہ آسانی سے کر لیتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ارکانِ اسمبلی کا کام قانون سازی ہے۔ لیکن معاشرے کی بدقسمتی ہے بلدیاتی کام ایم این اے اور ایم پی اے سے کرانے کا رجحان ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی نوشین افتخار کے مطابق اُنہیں وزارتِ داخلہ کا قلم دان دیا جائے تو وہ بہت کچھ ٹھیک کر دیں گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کیوں کہ معاشرے میں خواتین کو کمزور سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو اہم عہدے دینے چاہیئں اُنہیں کمزور نہیں سمجھنا چاہے۔
اپنی الیکشن مہم کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے اپنی انتخابی مہم میں مرد امیدواروں سے زیادہ محنت کی ہے جس پر اُن سمیت دیگر خواتین کا اہم عہدے ملنے چاہیئں۔
پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کی رائے میں اِس میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کی روایتی سیاست ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف ہے جو خواتین کو ماضی میں اہمیت سیاسی عہدوں پر لاتی رہی ہے۔ شیریں رحمان، نفیسہ شاہ اپنی جماعت میں اہم عہدوں پر رہی ہیں۔
احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ دہگر سیاسی جماعتوں میں کچھ مسائل ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) خاص طور پر خواتین کو نمائشی پوزیشن دیتی ہے۔ اِسی طرح پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا میں اکثریت رہی ہے جہاں خواتین کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود اُنہوں نے کسی بھی خاتون رکنِ اسمبلی کو وزیر نہیں بنایا۔