|
کوئٹہ — پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کیچ میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کے خلاف پانچ روز سے دھرنا جاری ہے۔ دھرنے میں چند روز قبل حراست کے بعد مارے جانے والے ظریف بلوچ کے اہلِ خانہ بھی شریک ہیں۔
ظریف بلوچ کے اہلِ خانہ کا دعویٰ ہے کہ اُنہیں گھر سے گرفتار کیا گیا جس کے اگلے روز اُن کی تشدد زدہ لاش ملی۔
احتجاجی مظاہرے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی، سول سوسائٹی کے ارکان سمیت خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ظریف بلوچ کے مبینہ اغوا اور ہلاکت کے ذمے داروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
مظاہرین کی جانب سے اس نوعیت کے واقعات کا الزام سیکیورٹی اداروں پر عائد کیا جاتا ہے۔ تاہم ریاستی ادارے ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
مظاہرین نے مطالبات کی منظوری کے لیے گزشتہ روز شہید فدا چوک سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر تک ریلی بھی نکالی۔ تاہم ضلعی انتظامیہ اور مظاہرین کے مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔ دوسری جانب مظاہرین کی حمایت میں ضلع کیچ کے تاجروں نے شٹرڈاؤن ڈاؤن ہڑتال کی۔
ظریف بلوچ کے اہلِ خانہ کے مطابق ان کے خاندان کے پانچ افراد لاپتا تھے جن میں سے دو افراد بازیاب ہو کر گزشتہ دنوں گھر لوٹ آئے ہیں۔
ظریف بلوچ کی بیٹی ماہ جان کے مطابق ”26 دسمبر کی رات تقریباً 10 بجے 20 سے 25 افراد گھر میں داخل ہوئے، انہوں نے مجھے اور میرے دو چچا کے بچوں کو الگ کیا اور امی سمیت خاندان کے دیگر افراد کو الگ کمرے میں بند کر دیا، اس دوران جب میں نے کھڑکی سے جھانکنے کی کوشش کی تو دیکھا کہ یہ افراد میرے والد کو پکڑ کر گھر سے لے گئے ہیں۔“
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ماہ خان نے بتایا کہ 27 دسمبر کو محلے داروں نے اطلاع دی کہ ظریف بلوچ کی لاش ملی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ “میرے والدکی زبان کاٹی گئی تھی اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔“ ظریف بلوچ نے سوگواران میں بیوی سمیت ایک بیٹی اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔
بلوچستان گزشتہ دو دہائیوں سے شورش کا شکار ہے بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اکثر سرکاری تنصیبات اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کی ذمے داری قبول کرتی آئی ہیں۔ بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جہاں سیکیورٹی فورسز پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات عائد کیے گئے ہوں۔
بلوچ رائٹس گروپ ‘پانک’ کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ ماہ نومبر کے دوران 12 بلوچ نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
پوسٹ مارٹم بھی نہیں کرنے دیا گیا: اہلِ خانہ کا الزام
سول سوسائٹی کیچ سے تعلق رکھنے والے گلزار دوست کا دعویٰ ہے کہ ظریف بلوچ کی لاش کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں ہو سکا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ”اگلی صبح لاش خراب ہونے لگی تھی تو ہم نے بغیر پوسٹ مارٹم کیے لاش کو ان کے آبائی علاقے دازن میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا اور احتجاج کرنے کیچ چلے آئے۔“
دوسری جانب کیچ کی ضلعی انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے جب وائس آف امریکہ نے ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت سے ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے مؤقف دینے سے گریز کیا۔
‘لاپتا افراد کا مسئلہ حل ہونا چاہیے’
نیشنل پارٹی کے رہنما اور رُکن بلوچستان اسمبلی رحمت صالح بلوچ کے مطابق جب تک لاپتا افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک بلوچستان کی ترقی ممکن نہیں۔ حکومت تمام فریقوں کو بٹھا کر مسئلے کا حل نکال سکتی ہے۔
رحمت صالح بلوچ کے مطابق انہوں نے اسمبلی فلور پر ان مسائل پر بات کی ہے، حکومت عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان دوریاں بڑھانے کے بجائے نفرت ختم کرنے میں کردار ادا کرے۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی) بلوچستان چیپٹر کے وائس چیئرپرسن کاشف پانیزئی کہتے ہیں کہ ایچ آر سی پی شروع دن سے اس مؤقف پر قائم ہے کہ اگر کوئی شخص قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے تو اسے شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔
اُن کے بقول اس کے برعکس اگر کسی کو ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے تو وہ بنیادی انسانی حقوق اور آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی ہے جس کی ایچ آر سی پی مذمت کرتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنی عدالتوں پر اعتماد کرتے ہوئے قوانین کے تحت تمام لاپتا افراد کو عدالت میں پیش کر کے جرم ثابت ہونے پر سزا دینی چاہیے۔
وائس آف امریکہ نے اس احتجاج پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کیچ، کمشنر مکران ڈویژن داؤد خلجی اور ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند سے مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا۔ لیکن وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔
پاکستان کی حکومت اور عسکری ادارے ماضی میں یہ کہتے رہے ہیں کہ لاپتا افراد کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔
ان کا الزام ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ مارے گئے ہیں ان کا نام بھی لاپتا افراد کی فہرستوں میں شامل رہا ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کچھ ماہ قبل لاپتا افراد کے حوالے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو تنظیمیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں انہیں چاہیے کہ پہلے اپنے دعوے کو ثابت کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص لاپتا ہوا بھی ہے تو اس سلسلے میں ایک کمیشن کام کر رہا ہے اور ہر ماہ اس کمیشن کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں لاپتا افراد کے کیسز کا اندراج ہوتا ہے۔
اُن کے بقول اگر تنظم کے پاس اس دعوے کے شواہد ہیں تو وہ لاپتا افراد کمیشن کو پیش کریں تاکہ ان افراد کو تلاش کرنے کے لیے کوششیں عمل میں لائی جائیں۔