|
“ہمارے لیے وہ دن بہت اذیت ناک تھا جب ہماری بچی کو سیلاب کے پانی میں موجود ایک سانپ نے کاٹ لیا۔ ہر طرف پانی اور راستے بند ہونے کی وجہ سے ایسا لگا کہ بچی مر جائے گی۔”
یہ کہنا ہے سندھ کے علاقے جوہی کے ایک گاؤں کے رہائشی محمد بخش کا جن کی 10 سالہ بیٹی رانی کو چند منٹوں کی مسافت کئی گھنٹوں میں طے کرنی پڑی۔
مون سون کی حالیہ بارشوں کے باعث ملک بھر میں مختلف حادثات و واقعات میں کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق یکم جولائی سے اب تک مون سون کی بارشوں کے دوران ملک بھر میں 285 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 145 بچے شامل ہیں۔
ملک بھر میں اب تک بارشوں کے سبب ہونے والے نقصانات میں ایک ہزار 924 مکانات مکمل طور پر تباہ جب کہ ساڑھے 17 ہزار مکانوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
محکمہ موسمیات مون سون سے قبل ہی یہ پیش گوئی کرچکا تھا کہ رواں برس پاکستان بھر میں معمول سے 45 فی صد زیادہ بارشیں متوقع ہیں۔
غیر معمولی بارشوں کے سبب درمیانے درجے کے سیلابوں سے صوبہ سندھ ایک بار پھر آزمائش سے گزر رہا ہے۔ سیلابوں اور بارشوں سے کئی دیہات مکمل طور پر زیرِ آب ہیں۔
سندھ کے کئی اضلاع بدین، میرپور خاص، سانگھڑ، دادو اور میہڑ کے شہری علاقے بھی کئی کئی فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
‘اب اگر بارشیں زیادہ ہوں تو دل گھبرانے لگتا ہے’
کاچھو کے رہائشی راج میگھواڑ کا وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اس علاقے میں کھیتی باڑی کے سبب کئی نسلوں سے آباد ہیں۔ یہاں بارشوں کا پانی آنے سے علاقہ سرسبز ہوجاتا ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ایسا ہے کہ جب بارشیں زیادہ ہوں تو دل گھبرانے لگتا ہے کہ کہیں یہ زحمت نہ بن جائیں۔
مقامی شخص محمد بخش کا کہنا ہے کہ کئی گاؤں میں پانی داخل ہوا ہے، ہم بس ڈر رہے ہیں کہ 2022 والی صورتِ حال نہ پیدا ہو۔
سیلابی صورتِ حال سے متاثرہ ان علاقوں میں منچھر کے ملاحوں سمیت کئی نجی کشتیاں چل رہی ہیں۔ کیوں کہ بہت سے راستے پانی کے بہاؤ کے سبب بہہ جانے اور ٹوٹ جانے سے رابطہ سڑکیں اور گاؤں تک لے جانے والے راستے منقطع ہو چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے معشوق برہمانی کا کہنا ہے کہ اس وقت بارشوں سے متاثرہ لوگ پریشانی کا شکار ہیں۔ جو کچے گھر ہیں وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ خاندان کھلے آسمان تلے اپنے ہی علاقوں میں بیٹھے ہیں۔
ان کے مطابق کئی جگہوں پر بارشوں سے قبل بند باندھے گئے ہیں جو ماضی میں بھی ٹوٹے تھے۔ ابھی یہ بند اپنی جگہ قائم ہیں لیکن اگر پانی کا بہاو بڑھتا گیا تو کیا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
میرپورخاص بھی بارشوں اور سیلابی پانی سے متاثر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے علی رضا رند کا کہنا تھا کہ کئی لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔
ان کے مطابق شہری علاقوں میں بھی کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے جس کی وجہ سے بچوں کو اسکول جانے اور کام کاج کے لیے شہری علاقوں کا رخ کرنے والے متاثر ہیں۔
تحصیل جھڈو بھی اس وقت بری طرح پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ علی رضا کے مطابق 2011 اور 2022 کا سیلاب ہو یا حالیہ بارشیں، جھڈو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں کشتیاں چل رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے تباہی کی اہم وجہ ندی اور نالوں کی ناقص حالت ہے۔ جب بھی برسات ہوتی ہے لوگ منتظر ہوتے ہیں کہ ان نالوں کی مرمت کر دی جائے اور مون سون سے قبل انہیں چوڑا کیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ یوں ہمیشہ یہ علاقہ ڈوب جاتا ہے۔
سہراب چنا کے مطابق “میری تیار کپاس کی فصل پانی میں ڈوب چکی ہے۔ 2022 کے سیلاب میں بھی میرا خاندان فاقوں پر آگیا تھا۔ اس سال جب میری فصل ڈوبی تو زمین دار نے بھی ہاتھ کھڑے کر لیے۔ ہم اتنی محنت کر کے اپنے لیے جو سال بھر کی گندم روٹی کا بندوبست کرتے ہیں وہ بھی اس بارش کی نذر ہو گئی۔”
‘اولاد پیدا کرنے کی خوشی سے زیادہ فکر ہوتی ہے کہ قدرتی آفت بچے کو نہ نگل لے’
بارش کی وجہ سے زمین، گاؤں، دیہات، فصلیں اور مکانات تو تباہ ہوئے ہی ہیں لیکن کئی ایسے علاقے جہاں اس سال خواتین نے بچوں کو جنم دینا ہے ان کے لیے برسات کے پانی سے علاقوں کا رابطہ سڑکوں سے کٹ جانا ایک نئے خوف کو جنم دے رہا ہے۔
بتیس سالہ عقیلہ جھڈو کی رہائشی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ “سال 2022 میں میری ڈلیوری کو ایک ہفتہ ہوا تھا کہ ہمیں گھر چھوڑ کر سڑک کنارے بیٹھنا پڑا۔ اس بار مجھے فکر ہے کہ آئندہ چند دنوں میں اگر مجھے اسپتال جانا پڑا تو میں کیسے جاؤں گی؟”
عقیلہ کے مطابق ہمارے نصیب میں اولاد پیدا کرنے کی خوشی سے زیادہ اس بات کی فکر زیادہ ہوتی ہے کہ بچہ دنیا میں زندہ تو آ گیا ہے اب یہ قدرتی آفت اس کو نہ نگل جائے۔
میرپورخاص اور جھڈو میں ہونے والی تباہی پر ضلعی انتظامیہ نے چیف سیکریٹری سندھ کو رپورٹ میں بتایا ہے کہ حالیہ بارشوں میں 2286 مکانوں کو نقصان پہنچا ہے جس میں 800 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ میرپورخاص اور ٹنڈو جام محمد میں دو شگاف بھی پڑے جس سے زیادہ تباہی ہوئی اور ابھی تک کئی درجن دیہات زیر آب آ چکے ہیں۔ تحصیلوں میں ایک لاکھ ایکڑ پر پھیلی تیار فصلیں بھی ڈوب چکی ہیں۔
مقامی این جی او ‘پیس فاونڈیشن’ سے منسلک اسلم پنھور نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میر پور خاص کو جانے والی بڑی شاہراہ تو صاف ہے لیکن اندر جانے والی رابطہ سڑکیں اور آبادیاں زیر آب ہیں۔ گنجان آبادیوں، تنگ گلیوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑے ہونے سے لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔
ان کے مطابق بارش کے پانی سے مویشیوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں جس کے باعث کئی مویشی مر چکے ہیں۔ اب کسان اور ان کے خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
اسلم پنھور نے مزید بتایا کہ ان کی این جی او کی کچھ خواتین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تو انہیں کچھ حاملہ خواتین نے آگاہ کیا کہ ان کی ڈلیوری کا وقت قریب ہے جس پر انہیں سواری کا انتظام کرکے متعلقہ اسپتال پہنچایا گیا۔ تاہم اب بھی ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں لوگوں کی پہنچ نہیں اور وہاں ایسی پھنسی خواتین یقیناً بے بس ہوں گی۔
بارش کا پانی کھڑے ہونے سے مچھروں کی بھی بہتات ہے جس سے ملیریا پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔
سندھ کے دیگر شہروں کی طرح بدین کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں۔ یہاں ساحلی پٹی پر بسے خاندان پہلے ‘اثنیٰ’ نامی طوفان کے الرٹ کے باعث محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے، اب جب محکمہ موسمیات نے بحیرہ عرب میں نئے بننے والے طوفان کی خبر دی ہے تو یہاں کے مقامی افراد میں مزید خوف پیدا ہوگیا ہے۔
بدین کی رہائشی اور طالبہ نازیہ کا کہنا ہے کہ گو کہ اس وقت 2022 جیسے حالات تو نہیں ہیں۔ تاہم اپنا گھر چھوڑ کر کسی عارضی پناہ گاہ میں رہنے والے کی تکلیف کم نہیں ہوتی۔
نازیہ کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کیا ہوتی ہے یہ اب سب کو نظر آرہا ہے لیکن اتنی بارشوں اور تباہ کن سیلابوں کے بعد بھی اربابِ اختیار یہ طے نہیں کر سکے کہ ایسا کیا کرنے کی ضرورت ہے جس سے کم سے کم جانی اور مالی نقصان ہو سکے۔