پاکستان کے ایوانِ بالا کے رکن سینیٹر دلاور خان نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں عام انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد منظور ہونے کے بعد اب اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی قرارداد کی بنیاد پر عام انتخابات ملتوی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرانے کے حوالے سے مزید دو قراردادیں جمع کرائی گئی ہیں۔
ایک قرارداد سینیٹر ہدایت اللہ نے جمع کرائی ہے جس میں انتخابات تین ماہ تک ملتوی کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرارداد کے مسودے میں بھی الیکشن ملتوی کرنے کی وجہ سیکیورٹی صورتِ حال کو قرار دیا گیا ہے۔
سینیٹ میں قرارداد پیش کرنے والے سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ وہ سابقہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے علاقے کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے سینیٹ میں آواز اٹھائی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہ نہ تو آزادی سے گھوم سکتے ہیں نہ ہی کسی کو اپنی بات پہنچا سکتے ہیں تو ایسے حالات میں انتخابات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں ان کے علاقے میں دو دھماکے ہوئے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران انہیں متعدد دھمکی آمیز فون کالز آئیں جن کی پولیس میں رپورٹ درج ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران امیدوار آسان ہدف ہوتے ہیں اور یہ خطرہ کسی ایک امیدوار کو نہیں بلکہ سب سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ہے۔
سینیٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ سینیٹ سے قرارداد کی منظوری کے باوجود الیکشن کمیشن یا نگراں حکومت نے ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اور الیکشن کمیشن ان کے تحفظات کو نہیں سنتے اور انتخابی عمل کے دوران مزید جانی نقصان سامنے آتا ہے تو اس کا ذمے دار کون ہو گا۔
سینیٹر ہدایت اللہ نے اس تاثر کو رد کیا کہ وہ انتخابات کے التوا کی قرارداد کسی کے کہنے پر لائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ حلفاً کہہ سکتے ہیں کہ قرارداد کے حوالے سے ان کی کسی ادارے سے بات چیت نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ وہ الیکشن کے مخالف نہیں ہیں اور الیکشن کمیشن بھلے 10 دن پہلے الیکشن کرا لے لیکن قبائلی اضلاع میں تحفظ دیا جائے۔
‘یہ قراردادیں محض اتفاق نہیں ہے’
کمیونٹی ڈویلپمنٹ سے متعلق غیر سرکاری تنظیم ‘پتن’ کے سربراہ سرور باری کا کہنا ہے یکے بعد دیگرے انتخابات کے التوا کے لیے سامنے آنے والی سینیٹ کی قراردادیں کو محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اُن کے بقول ان قراردادوں کی کئی قانونی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے لیے ان پر عمل کرنا قانونی اور آئینی طور پر ضروری ہے۔ لیکن ایسی قراردادیں انتخابات کے بارے میں ایک غیر یقینی صورتِ حال پیدا کرنے کی بعض حلقوں کی طرف سے بظاہر کوشش نظر آتی ہے۔
انتخابی عمل کی شفافیت کا جائزہ لینے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ترجمان مدثر رضوی کہتے ہیں کہ سینیٹ میں انتخابات کے التوا کے لیے تیسری قرار دادا پیش ہوئی ہے جس کی وجہ سے الیکشن کے بارے میں غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مدثر رضوی نے کہا کہ اس غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے ٹرن آؤٹ پر منفی اثر پڑ نے کا خدشہ ہے۔
اُن کے بقول انتخابی تاریخ میں کچھ مثالیں ملتی ہیں کہ جب ایک دو حلقوں میں سیکیورٹی کی وجہ سے الیکشن کو مؤخر کیا گیا ہے۔ لہذٰا پورے ملک میں انتخابات ملتوی کرنے کے بجائے کچھ حلقوں میں انہیں ملتوی کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کا مراسلہ
الیکشن کمیشن نے سینیٹ سیکریٹریٹ کو مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کا جائزہ لیا ہے جب کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان صدر سے مشاورت کے بعد کیا گیا تھا۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں بھی انتخابات سردیوں میں ہوتے رہے ہیں جب کہ امن و امان کے حوالے سے نگراں حکومت کو احکامات جاری کیے جا چکے ہیں اس لیے موجودہ صورتِ حال میں الیکشن ملتوی کرنا مناسب تجویز نہیں ہے۔
مراسلے کے مطابق آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کو ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔
قبل ازیں سینیٹر دلاور خان نے چیئرمین سینیٹ کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سینیٹر دلاور خان نے اپنے خط میں سینیٹ کی اس قرارداد کا بھی ذکر کیا ہے جو 10 دن قبل پانچ جنوری کو ایوانِ بالا سے منظور ہوئی تھی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ایوانِ بالا سے منظور ہونے والی قرارداد اجتماعی خواہش کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن اس قرارداد کی منظوری کے باوجود الیکشن کمیشن نے آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے۔
سینیٹ سے منظور قرار داد کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں بیان کیے گئے مسائل کے حل تک شفاف اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے انتخابات کے التوا پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک کے ہر علاقے کے لوگوں اور سب سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں شمولیت کا موقع ملے گا۔
واضح رہے کہ سینیٹر دلاور خان نے ہی پانچ جنوری کو سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد پیش کی تھی۔ جس وقت یہ قرار داد ایوان میں پیش کی گئی اس وقت ایوان میں صرف 14 سینیٹرز موجود تھے۔ واضح رہے کہ سینیٹ کے مجموعی ارکان کی تعداد 100 ہے۔
قرارداد میں کہا گیا تھا کہ جنوری اور فروری میں بلوچستان کے کئی علاقوں میں موسم سخت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور محسن داوڑ پر حملے ہوئے اور کئی رہنماؤں کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ سینیٹ وفاق کے حقوق کا ضامن ہے۔ الیکشن شیڈول کو ملتوی کیا جائے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ کے ارکان سے رائے لی تو ایوان میں موجود اراکین کی اکثریت نے عام انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کر لی۔
سینئر صحافی حامد میر نے اس قرار داد کے حوالے سے ‘جیو نیوز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت یہ قرار داد پیش کی جا رہی تھی اس وقت سینیٹ میں 14 اراکین موجود تھے جن میں سے سینیٹر افنان اللہ نے اس کی مخالفت کی جب کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند اس پر ووٹنگ کے دوران خاموش رہے۔
اس قرارداد کی منظوری کے فوری بعد جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بھی سینیٹ میں قرارداد جمع کرائی جس میں الیکشن وقت پر کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ البتہ اس قرارداد پر ووٹنگ نہیں ہوئی ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کی قرار داد میں کہا گیا تھا کہ موسم کی صورتِ حال اور امن و امان کو بنیاد بنا کر الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد جو سینیٹ میں منظور کی گئی ہے وہ غیر جمہوری اور دستور کے خلاف ہے۔ الیکشن کا انعقاد دستوری تقاضا ہے، الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ دستور کے مطابق الیکشن کا انعقاد بروقت کرائے۔
ایک اور قرارداد تین دن قبل بھی جمع کرائی گئی تھی۔ یہ قرارداد سینیٹر ہلال الرحمان نے جمع کرائی ہے۔
سینیٹر ہلال الرحمان کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کو موزوں تاریخ تک ملتوی کیا جائے۔
اس قرارداد میں بھی موسم اور امن عامہ کے حالات کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی نگراں حکومت مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے۔
نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے اتوار کو بھی ایک انٹرویو میں واضح کیا تھا کہ سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کے حوالے منظور کی گئی قرارداد ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ الیکشن مقررہ تاریخ پر آٹھ فروری کو ہی ہوں گے۔
خیال رہے کہ سینیٹ میں الیکشن کے التوا کے لیے قراردادیں فاٹا کے ارکان نے جمع کرائی ہیں۔ سینیٹر دلاور خان، سینیٹر ہدایت اللہ اور سینیٹر ہلال الرحمان فاٹا سے ایوانِ بالا کے ارکان ہیں۔
یہ تینوں ارکان 2018 میں آزاد حیثیت میں سینیٹ کے ارکان منتخب ہوئے تھے جب کہ دو ماہ بعد ان کی ایوانِ بالا کی رکنیت ختم ہونے والی ہے۔