|
ویب ڈیسک — سینئر صحافی اور یوٹیوبر مطیع اللہ جان کو نامعلوم افراد کی جانب سے مبینہ طور پر حراست میں لیے جانے کے بعد اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق مطیع اللہ جان کو بدھ کی شب 11 بجے پمز اسپتال کی پارکنگ سے حراست میں لیا گیا تھا۔
صحافی کو جمعرات کی صبح اسلام آباد کی مارگلہ پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے جب کہ مطیع اللہ جان کے قریبی دوست اور صحافی وحید مراد نے بھی ان کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
مارگلہ پولیس اسٹیشن کے باہر صحافیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ تاہم مطیع اللہ جان کے خلاف درج کسی مقدمے کی کاپی صحافیوں کو فراہم نہیں کی گئی۔
قبل ازیں مطیع اللہ جان کے صاحب زادے عبد الرزاق نے ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے والد کو گاڑی میں سوار نامعلوم افراد لے کر گئے ہیں۔ ان سے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔
سوشل میڈیا پر مطیع اللہ جان کے ذاتی اکاؤنٹ سے جمعرات کو کی جانے والی ایک پوسٹ کے مطابق “نامعلوم افراد نے مطیع سمیت ایک اور صحافی ثاقب بشیر کو بھی اٹھایا تھا جنہیں پانچ منٹ بعد چھوڑ دیا تھا۔”
مطیع اللہ جان کی اسلام آباد پولیس کو حوالگی ایسے موقع پر ہوئی ہے جب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے ایک بیان میں صحافی کو غیر مشروط طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
البتہ مطیع اللہ جان کی مبینہ گرفتاری پر کسی سرکاری یا سیکیورٹی ذمے دار نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
مطیع اللہ جان کے خلاف تھانہ مارگلہ میں درج ایف آئی آر وائس آف امریکہ کو موصول ہو گئی ہے۔ سرکار کی مدعیت میں درج مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ ایک تیز رفتار گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔ تاہم اس گاڑی کے ڈرائیور نے ملازمین کو مارنے کی غرض سے گاڑی ان پر چڑھا دی۔ ملازمین کو تیز رفتار گاڑی سے مارنے کی کوشش کی گئی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملازمین کی جانب سے گاڑی کو بیریئر لگا کر روکا گیا۔
متن کے مطابق اس مقدمے میں مطیع اللہ جان کو نامزد کیا گیا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزم نشے کی حالت میں تھا جب کہ گاڑی کی سیٹ کے نیچے سے آئس برآمد ہوئی۔
اس مقدمے میں مطیع اللہ جان کی جانب سے سرکاری ملازمین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
صحافی مطیع اللہ جان گزشتہ کچھ عرصے سے اپنا یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں اور اسلام آباد میں سیاست دانوں اور صحافت سے وابستہ شخصیات سے اپنے چینل کے لیے چلتے پھرتے انٹرویوز لیتے ہیں اور ان سے سخت سوالات کرتے ہیں۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کی حکومت میں 21 جولائی 2020 کو مطیع اللّہ جان کو اسلام آباد میں ہی ‘نامعلوم افراد’ ایک اسکول کے قریب سے زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔
بعد ازاں یہ نامعلوم اغوا کار اُنہیں راولپنڈی سے 30 کلو میٹر دور فتح جنگ کے مقام پر گاڑی سے باہر پھینک کر چلے گئے تھے اور وہ اپنے گھر واپس پہنچے تھے۔ اُس وقت ان کے اغوا پر سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا تھا اور سیکیورٹی اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے جمع کرائی گئی سیکیورٹی اداروں کی رپورٹ مسترد کر دی تھی۔ پولیس نے رپورٹ میں کہا تھا کہ صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کاروں کی شناخت ممکن نہیں ہے۔
مطیع اللہ جان پاکستان میں ریاستی اداروں بالخصوص فوج کی سیاست میں مداخلت پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔
اسلام آباد میں رواں ہفتے تحریکِ انصاف کے احتجاج کے دوران بھی وہ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے ویڈیوز اپ لوڈ کرتے رہے تھے۔