ہوم Pakistan پاڑہ چنار شاہراہ کی بندش کے خلاف ملک گیر مظاہرے: ‘دو ماہ...

پاڑہ چنار شاہراہ کی بندش کے خلاف ملک گیر مظاہرے: ‘دو ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں، کرم ایک جیل بن چکا ہے’

0


  • پاڑہ چنار کو دیگر شہروں سے ملانے والی شاہراہ کی بندش کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔
  • پاڑہ چنار، پشاور، اسلام آباد، کراچی اور دیگر شہروں میں دھرنے اور مظاہرے کیے گئے ہیں۔
  • عوام کا اپنی حکومت سے اعتماد اٹھ چکا ہے: راجہ ناصر عباس
  • پاڑہ چنار روڈ کو سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر آمد و رفت کے لیے بند کیا گیا ہے: ڈپٹی کمشنر
  • کرم میں بے امنی تخلیقی ہے وہاں کوئی شیعہ-سنی جنگ نہیں ہے: ناصر عباس
  • لوگوں کی مشکلات کے پیشِ نظر ہیلی کاپٹر سروس چلائی جا رہی ہے: صوبائی حکومت

پشاور — پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم کے انتظامی شہر پاڑہ چنار اور اس کے نواحی علاقوں کو پشاور اور دیگر شہروں سے ملانے والی اہم شاہراہ کی بندش کے خلاف مظاہروں اور احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ ملک بھر میں پھیل گیا ہے۔

پاڑہ چنار میں جمعے کو احتجاجی دھرنا آٹھویں روز بھی جاری ہے جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، پشاور، کراچی اور دیگر شہروں میں مطالبات کے حق میں دھرنے اور مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔

شاہراہ کی بندش کے باعث اپر کرم کے رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور سخت سردی میں خوردنی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی عدم دستیابی نے لوگوں پریشانی مزید بڑھا دی ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے میں سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام کا اپنی حکومت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان کے بعد ضلع کرم بھی عوامی بے چینی کا شکار ہو چکا ہے۔

ان کے بقول ضلع کرم میں بے امنی تخلیقی ہے وہاں کوئی شیعہ-سنی جنگ نہیں ہے۔ کرم کے عوام امن چاہتے ہیں۔ دو ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں، کرم ایک جیل بن چکا ہے۔ دوائیاں ختم ہو چکی ہیں اور اشیائے خورونوش کی شدید قلت ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس اہم شاہراہ کو فوری طور پر کھولے اور لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔

پاڑہ چنار اور نواحی علاقوں کو کوہاٹ، پشاور اور ملک کے دیگر شہروں سے ملانے والی اس اہم شاہراہ کو اکتوبر کے وسط میں اس وقت بند کیا گیا تھا جب اپر کرم کے ایک گاؤں میں متحارب قبائلی گروہوں میں تصادم کے نتیجے میں متعدد افراد مارے گئے تھے۔

اس تصادم کے بعد ضلع کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور متحارب قبائلی فریقین کے درمیان مسلح تصادم کا سلسلہ شروع ہوا جو نومبر کے آخر تک جاری رہا۔ اس تصادم کے نتیجے میں اب تک لگ بھگ دو سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ کرم کے سرحدی قصبے بگن میں درجنوں گھر، دکانیں اور دیگر امکان بھی خاکستر ہو چکے ہیں۔

نومبر کے آخر میں خیبر پختونخوا حکومت ایک قبائلی جرگے کے ذریعے فریقین کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کرانے میں تو کامیاب ہوگئی تھی لیکن پاڑہ چنار کی اس اہم شاہراہ کو آمد و رفت کے لیے ابھی تک نہیں کھولا جا سکا ہے۔

شاہراہ کی بندش کے خلاف پشاور میں بھی نمازِ جمعہ کے بعد شہر اور صدر کے مختلف علاقوں سے مظاہرین احتجاجی دھرنے کے لیے جلوسوں کے شکل میں پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے۔

مظاہرین میں خواتین بچے اور بچیاں بھی شامل تھی۔ ان مظاہرین میں ضلع کرم کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے وہ افراد بھی شامل تھے جو پاڑہ چنار روڈ کی بندش اور اس شاہراہ پر تشدد کے پے در پے واقعات کے باعث اکتوبر سے پشاور ہی میں رکے ہوئے ہیں۔

ادھر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی پاڑہ چنار میں حالیہ واقعات کے خلاف مختلف مقامات پر دھرنے دیے جا رہے ہیں۔

کراچی سے وائس آف امریکہ کی نمائندہ سدرہ ڈار کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں میں وحدت المسلمین کی جانب سے مظاہرے اور دھرنے دیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے مختلف سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہے۔

ٹریفک پولیس کی جانب سے شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ متبادل راستے استعمال کریں۔

مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟

ایک روز قبل پاڑہ چنار میں دھرنا دینے والے مظاہرین نے حکومت کو علاقے میں قیامِ امن اور اہم قومی شاہراہ پر آنے جانے والوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے 11 نکاتی مطالبات پیش کیے تھے۔

ان مطالبات میں پاڑہ چنار روڈ پر پولیس چوکیوں کا قیام اور ان چوکیوں میں دونوں جانب کے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکاروں کی تعیناتی سرِ فہرست ہے۔

اس کے علاوہ کرم کے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسر کی فوری طور پر تبدیلی اور ان کی جگہ اہل اور غیر جانبدار افسران کی تعیناتی کے مطالبات بھی شامل ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کا مؤقف

ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کا کہنا ہے کہ پاڑہ چنار روڈ کو سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر آمد و رفت کے لیے بند کیا گیا ہے۔

ان کے بقول کوہاٹ کے کمشنر ہاؤس میں متحارب فریقوں کے درمیان تنازعے کے مستقل حل کے لیے جرگہ جاری ہے۔

صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ سڑک کی بندش کی وجہ سے کرم کے شہریوں کی آمد و رفت میں مشکلات کے پیشِ نظر وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایات پر صوبائی حکومت کی ہیلی کاپٹر سروس بھی جاری ہے۔ یہ سروس کرم کے زمینی راستہ کھلنے تک جاری رہے گی۔

جمعے کو صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق جمعرات تک صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر ایم آئی 17 کی کرم کے لیے کُل چھ پروازیں ہوئیں جن کے ذریعے 145 افراد کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی گئی۔

بیان کے مطابق انہیں پرواز کے ذریعے بچوں کے لیے دودھ کے پیکٹس بھی پاڑہ چنار بھیجے گئے ہیں جب کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے کرم تک ضروری ادویات کی سپلائی کا عمل بھی جاری ہے۔ اب تک صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے تقریباً دس ٹن ادویات کرم پہنچائی جاچکی ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں کرم کے شہریوں کو درپیش مشکلات کا احساس ہے۔ صوبائی حکومت کرم کے عوام کی مشکلات کو کم کرنے اور انہیں ریلیف دینے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فریقین اور علاقہ عمائدین امن کی خاطر صوبائی حکومت کی کوششوں کا ساتھ دیں۔



Source

کوئی تبصرہ نہیں

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Exit mobile version