ہوم Pakistan پاکستان: بچوں سے جنسی زیادتی کے کیسز میں اضافہ، ‘حکومت کے پاس...

پاکستان: بچوں سے جنسی زیادتی کے کیسز میں اضافہ، ‘حکومت کے پاس واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی ایکشن پلان نہیں’

0


  • گزشتہ پانچ برس کے دوران بچوں سے جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں رپورٹ ہوئے ہیں، ایس ایس ڈی او
  • خیبرپختونخوا میں بچوں سے جنسی تشدد کے 1360، سندھ میں 458 اور بلوچستان سے 257 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
  • بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز کا رپورٹ ہونا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کو بھی ظاہر کرتا ہے، چیئرپرسن نیشنل کمیشن آن چائلڈ رائٹس
  • واقعات رپورٹ ہونے سے متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کو انصاف کے حصول میں مدد ملتی ہے، عائشہ رضا فاروق
  • لاہور بڑا شہر ہے جہاں سب سے زیادہ واقعات کے اندراج سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام اور پولیس کا ایسے معاملات کو دیکھنے کا شعور بہتر ہے، سید کوثر عباس

اسلام آباد _ پاکستان میں گزشتہ پانچ برس کے دوران بچوں سے جنسی تشدد کے 5398 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں یومیہ لگ بھگ تین بچے ریپ کا شکار ہوتے ہیں۔

سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال کے عرصے میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے درج شدہ واقعات میں مجموعی طور پر 220 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

پنجاب سے رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد 3323 ہے جو کہ مجموعی واقعات کا 62 فی صد بنتا ہے۔

اسی طرح خیبرپختونخوا میں بچوں سے جنسی تشدد کے 1360 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ 25.1 فی صد، سندھ میں 458 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ 8.5 فی صد اور بلوچستان سے 257 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ مجموعی واقعات کا پانچ فی صد ہیں۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے سے واضح ہوتا ہے کہ اس حوالے سے مضبوط قوانین اور اس کے نفاذ کے علاوہ عوامی آگاہی کی مہمات کی اشد ضرورت ہے۔

نیشنل کمیشن آن چائلڈ رائٹس کی چیئر پرسن عائشہ رضا فاروق کہتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز کا رپورٹ ہونا
قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قسم کے واقعات رپورٹ ہونے سے متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کو انصاف کے حصول میں مدد ملتی ہے۔

پنجاب میں 62 فی صد واقعات کے اندراج سے متعلق سوال پر عائشہ فاروق نے کہا کہ پنجاب ملک کی نصف سے زائد آبادی کا مسکن ہے اور بڑی آبادی کے پیش نظر یہ حیرت کی بات نہیں کہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

‘بچوں کے تحفظ کا عزم کر رکھا ہے’

ان کے بقول، پاکستان نے 2027 تک قومی سطح پر بچوں کے تحفظ کی خدمات کو مضبوط کرنے کے عزم کی توثیق کر رکھی ہے۔ اس وعدے میں ضلعی سطح پر بچوں کے تحفظ کے یونٹس کو وسعت دینا، بچوں کے تحفظ کے قوانین کو نافذ کرنا اور بچوں کے حقوق سے ہم آہنگ ورک فورس کی تیاری شامل ہے۔

ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے یہ واقعات وہ ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کے علاؤہ ہزاروں ایسے واقعات بھی ہوں گے جو رپورٹ نہیں ہوئے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سماجی رویوں اور چائلڈ پروٹیکشن کی بہتر سہولیات اور اقدامات نہ ہونے کے سبب بھی واقعات کا اندراج نہیں ہوپاتا۔

ان کے بقول، “اگر پنجاب میں زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس کا رپورٹنگ میکنزم دوسرے صوبوں سے بہتر ہے۔”

انہوں نے کہا کہ لاہور بڑا شہر ہے جہاں سب سے زیادہ واقعات کے اندراج سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام اور پولیس کا ایسے معاملات کو دیکھنے کا شعور بہتر ہے۔

ضلع لاہور میں بچوں سے زیادتی کے سب سے زیادہ 1176 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ خیبرپختونخوا کے کم آبادی والے ضلع کولائی پالس کوہستان، جہاں 18 سال سے کم عمر افراد کی آبادی محض ایک لاکھ 58 ہزار ہے، وہاں 84 واقعات رپورٹ ہوئے۔

کوثر عباس نے کہا کہ تشویش ناک اعداد و شمار کے پیش نظر افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کے پاس بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے ابھی تک کوئی نوٹیفائیڈ نیشنل ایکشن پلان نہیں۔

البتہ عائشہ رضا فاروق کہتی ہیں نیشنل کمیشن آن چائلڈ رائٹس بچوں کے تحفظ کی خدمات کی فراہمی کو مضبوط کرنے کے لیے وفاقی اور بین الصوبائی تعاون میں بہتری اور بہتر ڈیٹا اکٹھا کرنے کے نظام کا مطالبہ کرتا ہے۔

ان کے بقول، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز کی نگرانی اور رجحانات کو جاننے کرنے کے لیے ایک مرکزی قومی ڈیٹا بیس کا قیام اہداف کے حصول کے لیے ناگزیر ہے۔

عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کی آئندہ اسٹیٹ آف چلڈرن رپورٹ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تمام مسائل کا جامع جائزہ فراہم کرنے کی کوشش کرے گی اور پالیسی اصلاحات، بچوں کے تحفظ کے فریم ورک کو مضبوط بنانے کے لیے سفارشات پیش کرے گی۔

دوسری جانب سید کوثر عباس کہتے ہیں کہ پنجاب میں 62 فی صد کیسز رپورٹ ہونا موجودہ چائلڈ پروٹیکشن پالیسیوں اور ان کے نفاذ پر فوری نظرثانی کا تقاضہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے رپورٹ ہونے والے واقعات نظام میں موجود خلا کی نشاندہی کرتے ہیں، جنہیں حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے درمیان مربوط کوششوں سے حل کیا جانا چاہیے۔



Source

کوئی تبصرہ نہیں

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Exit mobile version