|
“میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی بارشیں نہیں دیکھیں جو اس بار ہوئیں۔ جب آسمان سے پانی برس رہا تھا تو ایسا لگ رہا تھا کہ ہمارے گھر کی دیواریں ہل رہی ہیں اور یہ کسی بھی وقت گر جائیں گی۔ ہم کئی روز تک بارش کی وجہ سے محصور رہے۔”
یہ جملے گوادر کی 50 سالہ رہائشی زبیدہ نذیر کے ہیں جو حالیہ بارشوں کے دوران ہونے والی تباہی کے بارے میں وائس آف امریکہ کو بتا رہی تھیں۔
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان اپریل کے مہینے میں ایسی تباہ کن بارشوں کا سامنا کرتا رہا جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ ان بارشوں میں گوادر کا ساحلی علاقہ پوری طرح ڈوب چکا تھا۔
اسی ماہ خیبر پختونخوا میں ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں میں 83 افراد ہلاک ہوئے جن میں 38 بچے شامل تھے جب کہ تین ہزار سے زائد مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔
حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے اب تک موسم کی تبدیلی، بے وقت کی بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلابوں کے باعث ملک بھر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 143 تک جا پہنچی ہے۔
پاکستان میں بدلتے موسم کے نتیجے میں ہلاکتوں کے ساتھ املاک اور زرعی زمینوں کو پہنچنے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ جون 2015 میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی نے جب ہیٹ ویو کا پہلی بار سامنا کیا تو ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔
اسی طرح 2022 میں آنے والے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب چکا تھا جس میں سندھ اور بلوچستان کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اس سیلاب میں تقریباً 1700 سے زائد افراد ہلاک اور تین کروڑ سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
سال 2022 کے سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقے اب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے ہیں اور اس سیلاب کو موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ویسے تو پاکستان کا گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کردار ایک فی صد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔
موسمِ سرما اور برف باری میں تاخیر، بے موسم ژالہ باری، گرمیوں میں معمول سے زیادہ بارشیں، سیلابی صورتِ حال اور ہیٹ ویو یہ سب گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہیں۔
سال 2024 کا موسم غیر معمولی ہے؟
پاکستان میں رواں برس موسم کے بدلتے تیور سے متعلق چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں پچھلے تین ماہ پاکستان میں موسم تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ رواں برس فروری سے اپریل کے دوران مک بھر میں معمول سے زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں جب کہ موسمِ سرما دسمبر سے جنوری تک موسم انتہائی خشک رہا جس میں معمول سے 80 فی صد تک کم بارشیں اور برف باری تاخیر سے ہوئی۔
سردار سرفراز کے مطابق دسمبر اور جنوری میں ہونے والی برف باری موسمِ گرما میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ لیکن اس بار مغربی ڈسٹربنس (مغربی ہواؤں کا دباؤ) کی شدت کے سبب اپریل جو عموماً گرم اور خشک مہینہ ہوتا تھا اس میں غیر معمولی بارشیں دیکھنے کو ملیں۔ جس سے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کشمیر کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
سردار سرفراز کے مطابق اپریل میں مسلسل بارشوں کا ہونا تشویش ناک ہے اور یہ عالمی حدت کے سبب ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کو شدید موسم کا سامنا ہے۔
ان کے بقول، اگر دنیا میں اتنی گرمی نہ پڑی ہوتی تو اس کے اثر سے پاکستان کسی حد تک محفوظ رہ جاتا۔
موسمیاتی تبدیلی زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟
ڈائریکٹر نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ کونسل ڈاکٹر بشیر احمد کے مطابق پاکستان کی زراعت کا انحصار بارشوں اور گلیشئیر پر جمی برف کے پگھلنے پر ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ گلگت بلتستان میں موجود گلیشئیرز اب تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے فی الحال پانی ضرورت سے زیادہ مل رہا ہے لیکن مستقبل میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار اسی طرح جاری رہی تو اس صدی کے آخر میں ہندوکش اور ہمالیہ ریجن کے گلیشئیرز کا 50 فی صد تک حجم کم ہوسکتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
ڈاکٹر بشیر کے مطابق حالیہ بارشوں سے بلوچستان کے رہائشی علاقوں اور باغات کو جہاں نقصان پہنچا وہیں ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی بارش سے گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی ہے۔ ان کے بقول، اندازہ لگایا جارہا ہے کہ تیار فصلوں کا 10 فی صد حالیہ بارشوں سے متاثر ہوا ہے۔
عامر حیات بھنڈارا جنوبی پنجاب کے ایک نوجوان کاشت کار ہیں جو جدید زراعت کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عامر حیات نے کہا کہ آج سے دس برس قبل اپریل-مئی کے مہینے میں لو چلا کرتی تھی اور اس وقت گندم کی فصل پکنے کے آخری مراحل میں ہوتی تھی جب کہ مئی کے مہینے میں تو گندم، کاٹن، تل کی فصل تیار ہو جایا کرتی تھی۔ لیکن اب ان مہینوں میں بے موسم کی بارشیں ہو رہی ہیں جس کی کاشت کار کو ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر ضروری بارشوں کے سبب گندم کی کٹائی میں تاخیر ہو رہی ہے اور جہاں اولے پڑ جائیں، یا طوفانی بارشیں ہوجائیں وہاں گندم کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔
مسئلے سے کیسے نمٹا جائے؟
چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کہتے ہیں ملک کا انفراسٹرکچر ایسا ہے کہ اگر ندی نالوں میں طغیانی آجائے تو پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی مؤثر بندوبست نہیں جس کی وجہ سے پانی سیلاب کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آبادیاں ایسی جگہ زیادہ ہیں جہاں کلائمیٹ چینج کا اثر زیادہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے تعمیرات پر کام کیا جائے جس میں آبی ذخائر اور ڈرینیج سسٹم سب سے کلیدی ہیں۔
سردار سرفراز کے مطابق پاکستان کو متبادل توانائی پر جانا ہو گا جس کے لیے جنگلات اگانے، سولر اور ونڈ انرجی پر انحصار بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر بشیر بھی ملک میں پانی کے ذخائر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پانی ذخیرہ کر کے زراعت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب کے جن علاقوں میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں، ان علاقوں میں چھوٹے، بڑے ڈیمز بنا کر زراعت کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے تالاب بنائے جائیں اور ڈرپ ایریگیشن کے طریقوں پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
محکمۂ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق آئندہ آنے والے مون سون میں بھی زیادہ بارشیں ہوں گی جن میں بلوچستان اور سندھ کے کچھ حصے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔
سردار سرفراز کے مطابق ساؤتھ ایشین کلائیمیٹ آؤٹ لک فورم کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جون سے ستمبر تک پورے جنوبی ایشیا میں غیر معمولی بارشیں متوقع ہیں۔