ہوم Pakistan ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور ہےبانی پی ٹی آئی کے معاملات میں...

ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور ہےبانی پی ٹی آئی کے معاملات میں کوئی بریک تھروہو جاتا ہے تو سو فی صد خسارے میں کون ہوگا۔۔ ؟مظہر عباس نے تہلکہ خیز انکشافات کر دیئے

0



کراچی ( خصوصی رپورٹ ) پی پی پی نے حکومت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود اب تک بہت کچھ حاصل کر لیا  اور مسلم لیگ (ن) نےوزارت عظمیٰ حاصل کر کے بھی بہت کچھ گنوا دیا ہے ۔ سابق صدر عارف علوی  نے جس طرح کا جذباتی بیان اپنے شہر پہنچ کر دیا ہے اس سے لگتا نہیں کہ وہ کسی آرام کے موڈ میں ہیں۔ موجودہ حکومت کا مستقبل بانی پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل سے وابستہ ہے۔مسلم لیگ (ن) خاصی کمزور پوزیشن پر ہے، اس وقت اگر کوئی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے تو وہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پی پی پی،  تیسرے فریق اور بانی پی ٹی آئی کے معاملات میں کوئی بریک تھروہو جاتا ہے تو سو فی صد خسارے میں مسلم لیگ اور شریف برادران ہونگے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار  مظہر عباس نے تہلکہ خیز انکشافات کر دیئے۔

“جنگ ” میں شائع ہونیوالے اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سیاسی طور پر ایک دوسرے کی ضد ہیں لہٰذا اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ یہ مستقل اتحاد کسی جمہوری اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوا ہے تو ذرا انتظار کر لیں تاریخی طور پر ’’ہنی مون‘‘ کی میعاد ہفتوں اور مہینوں رہتی ہے، عین ممکن ہےیہ ذرا طویل ہو جائے کیونکہ ضامن کی ضرورت ہے ان کا ساتھ رہنا، شاید اسی لیے پی پی پی نے حکومت کا حصہ نہ ہونے کے باوجود اب تک بہت کچھ حاصل کر لیا ہے اور مسلم لیگ (ن) نےوزارت عظمیٰ حاصل کر کے بھی بہت کچھ گنوا دیا ہے۔ ویسے بھی اس نئے دور کا آغاز سیاسی مخالفین کی گرفتاریوں سے ہی ہوا ہے۔ ایک طرف تقریب حلف برداری ہو رہی تھی تو دوسری طرف لاہور میں  تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاری۔ امید تو یہ تھی کہ وزیر اعظم، سیاسی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیں گے ۔ صحافی اسد طور اور عمران ریاض کی رہائی ممکن بنائی جائے گی مگر خیر، جو منصف خود ہی قید میں ہیں انصاف کیا دیں گے۔پچھلے ہفتوں میں ہماری سیاست میں چند بڑے واقعات ہوئے ہیں۔8فروری 2024کو ووٹرز نے ووٹ کو عزت بھی دی اور جمہوریت کے بہترین انتقام کے فلسفے کو بھی سچ کر دکھایاتاہم بات اگر صرف بیلٹ باکس تک رہتی تو نتائج یقینی طور پر مختلف ہوتے مگر ہمارے یہاں کا مسئلہ برسہا برس سے سلیکٹرز سے سلیکٹڈ تک میں پھنس کر رہ گیا ہے اور آج تک ہم پارلیمان کو آزاد نہیں کرا پائے تو سیاسی قیدیوں کو کہاں سے رہا کروا پائیں گے۔ اب تو ایسا لگتا ہے جیسے سابق صدر عارف علوی بھی رہا ہو کر کراچی پہنچے ہیں اور اڈیالہ جیل جانے کی تیاری کر رہے ہیں…. اس وقت تو اپنے لیڈر بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملے مگر جس طرح کا جذباتی بیان انہوں نے نئے صدر آصف علی زرداری کی تقریب حلف برداری کے بعد واپس اپنے شہر پہنچ کر دیا ہے اس سے لگتا نہیں کہ وہ کسی آرام کے موڈ میں ہیں۔

کالم میں مظہر عباس نے مزید لکھا کہ   ماضی کے مقابلے میں کم از کم مسلم لیگ (ن) خاصی کمزور پوزیشن پر ہے مرکز اور پنجاب میں حکومتوں کے ہونے کے باوجودوہ کسی بھی طرح نظام کا ڈی ریل ہونا برداشت نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اس وقت اگر کوئی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے تو وہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پی پی پی، دوسری بڑی وجہ اس اتحادی حکومت کے چلنے کی تیسرا فریق ہے اور وہ بہرحال اس وقت تک اس گاڑی کو چلائے گا جب تک اس کے اور بانی پی ٹی آئی کے معاملات میں لچک نہیں آتی اور اگر آگے چل کر کوئی بریک تھروہو جاتا ہے تو سو فی صد خسارے میں مسلم لیگ اور شریف برادران ہونگے زرداری صاحب اور پی پی پی نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ پی پی پی موجودہ حکومت کی حمایت کر رہی ہے مگر اس کا حصہ بننے کو تیار نہیں ۔ان تینوں فریقوں کا مشترکہ مفاد وہ ہے جو اڈیالہ میں ہے ،جو اس وقت بھی سیاست کا مرکز ہے اور سارا منظر نامہ اسی کے گرد گھوم رہا ہے۔ ایک سبق بظاہر تحریک انصاف نے یہ ضرور سیکھا ہے کہ سسٹم سے باہر نہیں رہنا یعنی اس وقت وہ پارلیمان اور اسمبلیوں کا حصہ بھی ہیں۔ ایک صوبے میں حکومت بھی کر رہے ہیں اور ایوانوں کے اندر اور باہر دھاندلی کے خلاف احتجاج بھی۔ آج تو عارف علوی بھی یہ بات کر رہے ہیں کہ اسمبلیوں سے باہر آنا سیاسی غلطی تھی۔ ایک بات طے ہے کہ موجودہ حکومت کا مستقبل بانی پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل سے وابستہ ہے۔ لہٰذا ماضی کے مقابلے میں مسلم لیگ اور پی پی پی کا خاص طور پر شریفوں کا طاقتور اداروں کےساتھ ٹکراؤ ممکن نہیں۔

کالم کے آخر میں مظہر عباس نے لکھا کہ الیکشن 2024میں ووٹ بظاہر صرف پی ٹی آئی اور بانی کے حق میں نہیں پڑا ،وہ ریاستی بیانیہ کے خلاف بھی ووٹ تصور کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ابھی تو یہ ہنی مون جلد ختم ہونے والا نہیں یہ کمپنی ابھی چلے گی۔ مسلم لیگ (ن) کیلئے اس الیکشن میں سوچنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ نواز شریف صاحب کا تین ، ساڑھے تین سال ملک سے باہررہنا اور پھر شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت نے ان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا توڑ محض اچھی گورننس نہیں اچھی سیاست بھی ہے۔ یہ 2008 نہیں جب پی پی پی سے معاہدہ چند ماہ میں ٹوٹ گیا، آپ حکومت سے نکل آئے، 2009 میں ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کیا۔ پی پی پی حکومت نے گورنر راج لگایا عدالت نے ختم کرایا اور جنرل کیانی کی گارنٹی پر سابق چیف جسٹس بحال ہوئے پھر حکومت مرکز میں پی پی پی کی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی چلتی رہی یہاں تک کے 2013 آ گیا اور اس ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ نے جنم دیا ایک تیسرے سیاسی فریق کو جو 2008 کے الیکشن میں بائیکاٹ کی وجہ سے نہیں تھا۔ وہ تیسرا آپشن عمران خان تھا۔ ان کی خاموش حمایت اس وقت اداروں کے طاقتور لوگوں نے کی۔ اب میں یہ بات کروں تو سمجھ میں آتی ہے کم از کم شریفوں کو یہ پروجیکٹ عمران والی بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کیلئے آپ کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ آپ کسی کا پروجیکٹ نہیں رہے جو ظاہر ہے حقیقت پر مبنی نہیں ہوگا۔ تو اس وقت تک ہنی مون کو انجوائے کریں ویسے بھی ہماری سیاست، مدت سے عدت تک آ گئی ہے۔





Source

کوئی تبصرہ نہیں

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Exit mobile version