|
پاکستان کی قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے فیصلے کو معاشی ماہرین خوش آئند قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض حلقوں کی جانب سے نجکاری کے عمل کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ حکومت کے تحت چلنے والے کاروباری اداروں کے بے پناہ نقصانات کے باعث ایسے سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہو چکی ہے۔ اگر نجکاری کا عمل نہ کیا گیا تو بیمار سرکاری ادارے معیشت کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
پی آئی اے کی نجکاری کا آغاز سابق نگراں دورِ حکومت میں کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال اکتوبر میں سابق نگراں وفاقی وزیر فواد احمد فواد کا کہنا تھا کہ سرکاری ایئر لائن روزانہ 50 کروڑ روپے کا خسارہ کر رہی ہے اور گزشتہ ایک سال میں ایئرلائن کا خسارہ 97.5 ارب روپے تھا۔ اس کا مجموعی خسارہ (اکتوبر 2023 میں) 713 ارب تک جا پہنچا تھا۔
اس دوران پی آئی اے کے مالی حالات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ اسے اپنے طیارے چلانے کے لیے ایندھن کے پیسے بھی ادا نہیں ہو پا رہے تھے اور کوئی مالیاتی ادارہ اسے قرض فراہم کرنے یا ایندھن قرض پر دینے کو تیار نہیں تھا۔
نجکاری کا عمل کہاں تک پہنچا ہے؟
نگراں وفاقی حکومت نے فروری میں پی آئی اے کی نجکاری کی منظوری دی تھی جس کے نتیجے میں پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
اس کے تحت پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے نام سے نئی کمپنی کا قیام عمل میں آیا تھا اور گزشتہ ہفتے اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی نامزد کر دیے گئے ہیں۔ پی آئی اے کے ذمے 825 ارب روپوں کے قرضوں میں سے 650 ارب کے قرضوں کی ادائیگی اب ہولڈنگ کمپنی کے ذمے ہو گی۔
اس عمل کے بعد 27 مارچ کو نو تشکیل شدہ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کی پہلی بورڈ میٹنگ منعقد ہوئی جس سے کمپنی کے آپریشن کا باضابطہ آغاز کردیا گیا ہے۔ اپنے پہلے اجلاس میں پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی میں پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق اسکیم آف ارینجمنٹ کی منظوری بھی دی گئی جس کی منظوری وفاقی کابینہ اور قومی ایئر لائن کا بورڈ پہلے ہی دے چکا ہے۔
پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے ذمے 650 ارب روپوں میں سے 268 ارب روپے کے کمرشل قرضے عوامی قرضوں میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح اب یہ قرضے واپس کرنا پی آئی اے کی نہیں بلکہ حکومت کی ذمے داری بن گئی ہے۔
بینکوں سے کیے گئے معاہدے کے تحت حکومت کو یہ قرضے اب 10 سال کی مدت میں واپس کرنے ہیں جن پر شرح سود 12 فی صد ہو گی۔
ڈیل کے تحت اگر حکومت تین سال کے اندر پی آئی اے کی نجکاری کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو کمرشل بینکوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اس معاہدے کو دوبارہ کھولیں اور سود کی شرح مروجہ حکومتی قرضے کی شرح کے برابر مانگیں۔
اسٹاک مارکیٹ پر پی آئی اے کی نجکاری پر پیش رفت کے اثرات
رواں ہفتے پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے تاریخ میں پہلی بار 67 ہزار کا بینچ مارک عبور کیا اور اسٹاک مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ پی آئی اے کی نجکاری کی خبریں تھیں۔
پی آئی اے کے شیئرز کا حجم بڑھ کر تین کروڑ 91 لاکھ سے تجاوز کر گیا ہے جب کہ اس کے فی شیئر کی قیمت مارچ میں 10 روپے 80 پیسے سے بڑھ کر 31 روپے 54 پیسے تک جا پہنچی ہے۔
معاشی ماہرین کی رائے میں اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) پی آئی اے اور دیگر حکومتی کاروباری اداروں کی نجکاری کے ذریعے اصلاحات کے نفاذ کے اپنے عزم پر ثابت قدم رہی جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھی گئی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا۔
حال ہی میں کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اصرار کیا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، پی آئی اے کی نجکاری پر کام شروع ہو چکا ہے اور اس میں تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے نئے پروگرام پر مذاکرات شروع کرنے سے قبل نجکاری کا عمل مکمل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ فنڈ سے بہتر ڈیل حاصل کی جا سکے۔
‘حکومت کو احساس ہو گیا ہے کہ خسارے میں چلنے والے ادارے بوجھ ہیں’
معاشی تجزیہ کار سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ معیشت کو ناقابل برداشت نقصان پہنچانے والے خسارے میں جانے والے اداروں کو سرکاری تحویل میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔
اُن کے بقول اس احساس نے اسٹاک مارکیٹ کو بہتر اشارے بھیجے ہیں لیکن اس عمل کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانا چاہیے۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے جنوری میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں سرکاری کمرشل اداروں نے مالی سال 2021 اور 2022 کے دوران مجموعی طور پر 1395 ارب روپے کا نقصان کیا۔ یہ رقم ملک میں وفاقی حکومت کی جانب سے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حجم سے دگنی بتائی جاتی ہے۔
نجکاری کے مخالفین کا مؤقف مختلف ہے۔ خاص طور پر پی آئی اے کی نجکاری کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ادارے کو اس حال تک پہنچانے میں ملازمین سے زیادہ حکومتی نااہلیوں، بدانتظامی اور ایک ایسے منظم گروہ کا مفاد کارفرما رہا ہے جو منافع بخش اداروں کو خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
نجکاری کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے کئی سرکاری اداروں میں ڈالا جانے والا مزید پیسہ ضائع ہی ہوا۔ ان سرکاری اداروں کو منافع بخش بننے اور ٹیکس دہندگان کے پیسے بچانے کے لیے انہیں نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کے حوالے کرنا چاہیے تاکہ حکومت کا بجٹ خسارہ کم ہو سکے جو اس بار پھر سات فی صد سے زائد رہنے کی توقع ہے۔