|
شپنگ گروپ مرسک نے پیر کو کہا ہے کہ بحیرہ احمر میں سامان بردار شپنگ ٹریفک میں رکاوٹ بڑھ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ دوسری سہ ماہی میں مشرق بعید اور یورپ کے درمیان جہاز رانی کی گنجائش 15 سے 20 فیصد تک کم ہو جائے گی۔
مرسک اور دیگر شپنگ کمپنیوں نے بحیرہ احمر میں ایران سے منسلک حوثی عسکریت پسندوں کے حملوں سے بچنے کے لیے دسمبر سے جہازوں کا رخ افریقہ کے ’کیپ آف گڈ ہوپ‘ کے ارد گرد موڑ دیا ہے، اور سفر میں پیش آنے والے طویل اوقات کی وجہ سے مال برداری کے اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔
مرسک نے پیر کو صارفین کے لیے ایک تازہ ترین ایڈوائزری میں کہا، “خطرے کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے، اور حملے ساحل سے دور تک ہو رہے ہیں۔”
اس نے مزید کہا کہ “اس کی وجہ سے ہمارے جہاز اپنا سفر مزید طویل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آپ کے لیے فی الوقت سامان کو اس کی منزل تک پہنچانے میں اضافی وقت اور لاگت آئے گی۔”
ڈنمارک کی کمپنی نے، جسے عالمی تجارت کے بیرومیٹر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بحیرہ احمر کے حملوں کی وجہ سے شپنگ میں رکاوٹیں کم از کم سال کے آخر تک برقرار رہنے کی توقع ہے۔
اس کے اثرات میں رکاوٹیں اور متعدد بحری جہازوں کا ایک ہی وقت میں بندرگاہوں پر پہنچنے کی وجہ سے جھمگٹا ہو جانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ سامان اور گنجائش کی کمی بھی مسئلے کا حصہ ہے۔
مرسک نے کہا، “ہم اعتماد کو بڑھانے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں کر رہے ہیں، اور اس میں جہاز رانی اور کنجائش میں تیزی سے اضافہ شامل ہے۔”
اس نے مزید کہا کہ اس نے اب تک، ایک لاکھ 25,000 ہزار اضافی کنٹینرز لیز پر دیے ہیں۔
کمپنی نے کہا کہ ہم نے اپنے صارفین کی ضروریات کے مطابق، جہاں بھی ممکن ہو، گنجائش اور کارکردگی میں اضافہ کیا ہے۔
حوثیوں کے حملے
یمن میں الحدیدہ کی بندرگاہ سمیت بیشتر حصے پر قابض حوثیوں نے نومبر میں اپنے حملوں کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جنگ کے دوران فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل سے منسلک جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ان حملوں کو روکنے اور جہاز رانی کو محفوظ بنانے کے لیے حوثیوں کے خلاف کارروائیاں کیں ہیں۔
ان کارروائیوں کا مقصد بحیرۂ احمر کی جہاز رانی کے راستوں پر ایران کے حمایت یافتہ باغیوں کے بار بار حملوں کو روکنا ہے۔
حوثیوں کے ان حملوں کے نتیجے میں بہت سی شپنگ کمپنیاں بحیرہ احمر کے راستے سے بچنے کے لیے افریقہ کے گرد طویل اور زیادہ مہنگے راستے پر سفر پر مجبور ہو گئی ہیں۔
7 اکتوبر کے جنوبی اسرائیل پر حماس کے اچانک اور بڑے حملے میں 1170 افراد ہلاک ہوئےتھے، جن میں عام شہری بھی شامل تھے اور عسکریت پسند واپس جاتے ہوئے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ جن میں سے ایک سو کے لگ بھگ نومبر میں ہونے والی عارضی جنگ بندی کے دوران فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلے میں رہا ہو گئے تھے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کی قید میں موجود باقی ماندہ یرغمالوں میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ میں کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔