|
ویب ڈیسک۔۔۔۔اسرائیل نے پیر کو غزہ کے مرکزی اسپتال کے سربراہ کو رہا کر دیا ہے وہ اس گروپ کا حصہ ہیں جس میں ایسے درجنوں فلسطینیوں کو رہا کیا گیا ہے جنہیں طبی علاج کے لیے غزہ واپس بھیجا گیاہے۔
اسرائیل نے پیر کے روز غزہ کے مرکزی اسپتال کے سربراہ کو رہا کر دیا ہے۔ یہ رہائی ان درجنوں فلسطینیوں کے سلسلے میں عمل میں آئی ہے جنہیں علاج معالجے کے لیے غزہ بھیجا گیا ہے۔
اسپتال کے سربراہ محمد ابو سلمیہ کو نومبر میں اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب اسرائیلی فورسز نے اسپتال پر چھاپے کے بعد یہ الزام لگایا تھا کہ حماس کے عسکریت پسند، اس طبی مرکز کو اپنے کمانڈ سینٹر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
اسپتال کے حکام نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل نے اسپتال میں مریضوں کے ساتھ ساتھ ان بے گھر فلسطینیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے جو وہاں پناہ کے لیے آئے تھے۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے ابو سلیمہ کی رہائی پر تنقید کرتے ہوئے مختصر پیغام رسانی کے پلیٹ فارم ایکس پر کہا ہے کہ سیکیورٹی کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کے ان سرحدی علاقوں میں جوابی کارروائی ہے جہاں سے ان پر 20 میزائل داغے گئے تھے۔
فوج نے کہا ہے کہ کچھ میزائلوں کو روک لیا گیا تھا جب کہ کچھ جنوبی اسرائیل میں جا گرے۔
اسرائیلی فورسز نے جنوبی لبنان کے کئی دیہاتوں میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی جانب سے کارروائیوں کو مزید وسیع کرنے سے جنگ کا دائرہ پھیلنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں اور امریکہ سمیت کئی ملکوں نے اسرائیل کو کشیدگی بڑھانے سے بچنے کے لیے کہا ہے۔
نیتن یاہو کا حماس کی شکست تک جنگ کا عزم کا اعادہ
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اتوار کے روز یہ کہتے ہوئے کہ’ فتح کا کوئی متبادل نہیں ہے‘ اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک عسکریت پسندوں کو شکست نہیں ہو جاتی اور حماس کی قید میں موجود 120 یرغمال اپنے گھروں کو لوٹ نہیں آتے۔
انہوں نے کہا کہ حماس کے خلاف جنگ، جسے اب تقریباً نو مہینے ہونے والے ہیں، اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم اپنے تمام اہداف حاصل نہیں کر لیتے اور حماس ، اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہتا۔
نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ یہ سادہ سا سچ ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرئیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں ہمارے یرغمالوں کی آزادی میں حماس واحد رکاوٹ ہے۔
جنگ بندی سے متعلق مذاکرات مسلسل تعطل میں پڑے ہوئے ہیں اور صورت حال تبدیل ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں یرغمالوں کی رہائی کے لیے چھ ہفتوں کی عارضی جنگ بندی پر تیار ہے جب کہ حماس لڑائی کو مستقل طور پر روکنے اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کر رہا ہے۔
حماس کا بیان
حماس کے ایک سینیئر عہدے دار اسامہ حمدان نے ہفتے کے روز بیروت میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ جنگ روکنے سے متعلق مذاکرات میں کوئی حقیقی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور امریکہ کی طرف سے جو بات کہی گئی ہے وہ جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کو کسی ترمیم کے بغیر قبول کرنے کے لیے حماس پر دباؤ ڈالنا ہے۔
ہفتے کے روز بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے کہا تھا کہ تعطل کے شکار اسرائیل حماس مذاکرات کو شروع کرنے کے لیے، جس میں مصر اور قطر ثالث ہیں، مسودے کو نئی زبان دی ہے۔
غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ ، 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کی قیادت میں عسکریت پسندوں کے ایک بڑے حملے کے جواب میں شروع ہوئی تھی۔ اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ڈھائی سو کے لگ بھگ افراد کو وہ یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ میں لے گئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے اسرائیل کی جوابی کارروائی میں اب تک 38000 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اور غزہ کی پٹی کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکاہے۔ جب کہ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئیں ہیں