|
ایرانی صدر مسعود پزیشکیان نے پیر کے روز اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے اختیارات کو اس چیز کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کریں گے کہ اخلاقیات کے امور کی پولیس خواتین کو پریشان نہ کرے ۔
انہوں نے یہ بات زیر حراست انتقال کرنے والی مہسا امینی کی دوسری برسی کے موقع پر ایک خطاب کے دوران کہی ۔
جولائی کے آخر میں عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران میں اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران پیزشکیان نے کہا، “مورالٹی پولیس کو ( خواتین کے ساتھ) محاذ آرائی نہیں کرنی چاہیے تھی ۔ میں اس معاملے پر نظر رکھوں گا تاکہ وہ پریشان نہ ہوں۔”
اصلاح پسند صدر نےانتہائی قدامت پسند ابراہیم رئیسی کی جگہ سنبھالی ہے جو مئی میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
پیزشکیان کے یہ تبصرے ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اسلامی جمہوریہ نے ستمبر 2022 میں پولیس کی حراست میں 22 سالہ ایرانی کرد مہسا امینی کی موت کی برسی منائی۔
امینی کو خواتین کے لیے لباس کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جن کے تحت ان کے لیے لازمی تھا کہ وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے اپنے سر اور گردن کو ڈھانپ کر رکھیں اور موزوں لباس پہنیں ۔
ایران میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد ملک گیر احتجاج شروع ہوا تھا اور اختلافی آوازیں اٹھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
مہسا امینی کی دوسری برسی پر ایران میں 34 خواتین بھوک ہڑتال کر رہی ہیں۔ ایران میں حکومت کے ناقدین اور خواتین پر جبر کی صورت حال برقرار ہے۔
بائیس سالہ کرد خاتون مہسا امینی کو ایران میں نافذ خواتین کے ڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا تھا جہاں ان کی ہلاکت ہوئی تھی۔
جیل میں 34 خواتین کی مہسا امینی کی برسی کے موقع پر بھوک ہڑتال
انسانی حقوق کی نوبیل انعام یافتہ ایرانی کارکن نرگس محمدی کی فاؤنڈیشن نے اتوار کو اپنے بیان میں بتایا تھا کہ جیل میں 34 خواتین مہسا امینی کی برسی کے موقع پر بھوک ہڑتال کر رہی ہیں۔
بیان میں بتایا گیا کہ ان خواتین نے حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے بھوک ہڑتال کی ہے۔
مہسا امینی کی موت نے ایران میں کئی مہینوں پر محیط مظاہروں کو جنم دیا، جن میں درجنوں سیکورٹی اہلکاروں سمیت سینکڑوں لوگ بدامنی میں مارے گئے اور ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
پیزشکیان نے اپنی مہم میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ پولیس کی ایسی کسی گشت کی مکمل طور پر مخالفت کریں گے جس میں وہ خواتین کو سر ڈھانپنے کے لازمی حجاب پر زبردستی عمل درآمد کرائیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے انٹر نیٹ پر ایک عرصےسے عائد سختیوں کو نرم کرنے کا عز م بھی ظاہر کیا تھا۔
ایران نے کئی برسوں سے مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مثلاً فیس بک اور ایکس پر پابندی عائد کرتے ہوئے انٹرنیٹ کے استعمال کو سختی سے کنٹرول کیا ہے۔
ایران میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف 2019 کے مظاہروں کے بعد اور امینی کی موت سے شروع ہونے والے مظاہروں کی لہر کے دوران سخت پابندیاں نافذ کی گئیں۔
پیر کے روز، پیزشکیان نے کہا کہ ان کی حکومت آن لائن پابندیوں کو کم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا پر۔
’جبر میں اضافہ‘
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق حکومت مخالف مظاہروں میں ہلاک یا قید ہونے والے درجنوں افراد کے اہل خانہ کو بھی ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔
ہیومن رائٹس کے لیے ایران کے امور پر تحقیق کرنے والی ناہید نقشبندی کے مطابق ایرانی حکام کی سفاکانہ کارروائیاں دگنی ہو گئی ہیں۔ وہ پہلے مظاہروں میں شریک ہونے والوں کو قید یا موت کی سزائیں دے رہے ہیں اور اس کے بعد ان کے گھر والوں کو بھی جوابدہ بنا رہے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔