ہوم World بائیڈن نے چینی درآمدت پر 18 ارب ڈالر کے محصولات لگا دیے

بائیڈن نے چینی درآمدت پر 18 ارب ڈالر کے محصولات لگا دیے

0



  • امریکہ کا کہنا ہے کہ چین غیر شفاف طریقوں سے اپنی مصنوعات سستی رکھ کر معاشی نقصان پہنچا رہا ہے۔
  • پچھلے سال امریکہ نے چین سے 427 ارب ڈالر کی درآمدات کیں جب کہ اسے 148 ارب ڈالر کی اشیا بھیجیں۔
  • تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ محصولات سے الیکٹرک گاڑیوں اور شمسی توانائی پیدا کرنے والے آلات کے پیداواری اخراجات بڑھ جائیں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز چینی درآمدات پر، جن میں الیکٹرک گاڑیاں، کمپیوٹر چپس اور طبی سازو سامان شامل ہے، بھاری محصولات لگانے کا اعلان کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اس انتخابی سال میں ان ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے جنہیں اقتصادی پالیسیوں سے شکایت ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن اپنے ریپبلکین پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے لگائے محصولات کو برقرار رکھتے ہوئے مزید ٹیکسز عائد کر دیے ہیں، جن میں الیکٹرک گاڑیوں کی ڈیوٹی میں 100 فی صد سے زیادہ اضافہ شامل ہے۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ چین غیر منصفانہ طریقوں سے عالمی منڈیوں کو اپنی سستی مصنوعات سے بھر رہا ہے جو امریکی اقتصادی سلامتی کے لیے ناقابل قبول خطرہ ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ چینی درآمدات پر 18 ارب ڈالر کے محصولات عائد کیے جا رہے ہیں، جن کا اثر اسٹیل، ایلومینیم، سیمی کنڈیکٹر چپ، بیڑیوں، اہم معدنیات، سولر سیلز اور کرینوں پر پڑے گا۔

امریکہ نے سن 2023 میں چین سے 427 ارب ڈالر کی درآمدات کیں اور 148 ارب ڈالر کی مصنوعات امریکہ سے چین کو بھیجی گئیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی خلا کئی عشروں سے جاری ہے اور تجارت میں جاری یہ مسلسل نقصان وائٹ ہاؤس کے لیے ایک حساس موضوع بن گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی معیشت کے مشیر لیل برینرڈ نے ایک کانفرنس کال میں نامہ نگاروں سے کہا کہ چین وہی طریقہ کار استعمال کر رہا ہے۔ وہ دوسروں کے اخراجات پر اپنی معیشت کو ترقی دینے کے لیے سرمایہ کاری جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ عالمی منڈیوں کو اپنی مصنوعات سے بھر رہا ہے جن کی قمیت غیر منصفانہ طریقے سے کم رکھی جاتی ہے۔

امریکہ کی تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی کا کہنا ہے کہ نظرثانی شدہ محصولات اس لیے جائز ہیں کیونکہ چین امریکہ کی املاک دانش چراتا رہا ہے اور وہ کچھ معاملات میں امریکی ٹیکنالوجی کو ہدف بنانے والے سائبر حملے کرنے میں زیادہ بے باک ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل سیکشن 301 کے محصولات کا امریکی معیشت میں زیادہ تر قیمتوں اور روزگار پر بہت معمولی اثر پڑا تھا، لیکن وہ امریکہ میں چینی اشیا کی درآمدات کم کرنے میں کارآمد رہا تھا۔ جب کہ اس کے نتیجے میں دوسرے ملکوں کی درآمدات بڑھیں تھیں۔

تاہم تائی نے چین سے درجنوں اقسام کی صنعتی مشینری کی درآمد کو محصولات سے خارج کرنے کی سفارش کی ہے جن میں شمسی توانائی کی مصنوعات تیار کرنے والے 19 اقسام کے آلات شامل ہیں۔

اگرچہ بائیڈن چین کی درآمدات پر محصولات میں اضافہ کرنے میں ٹرمپ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ ٹرمپ کو اپنی تنقید کا ہدف بھی بنا رہے ہیں جو نومبر کے انتخابات میں ان کے مدمقابل ہوں گے۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے چین کے ساتھ 2020 کے تجارتی معاہدے سے امریکی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی امریکہ کے صنعت کاری کے شعبے کی ملازمتوں میں اضافہ ہوا۔

وائٹ ہاؤس کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام مقامات پر جہاں سے پیداواری عمل کی شروعات ہوتی ہیں، ٹرمپ کے مجوزہ 10 فی صد محصول سے امریکہ کے اتحادیوں کو مایوسی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

گزشتہ ماہ رائٹرز اور اِپسوسی ایٹڈ پریس کے رائے عامہ کے ایک جائزے میں بتایا گیا تھا کہ معیشت کے حوالے سے ٹرمپ کو بائیڈن پر 7 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔

چین نے کہا ہے کہ محصولات نقصان دہ ہیں اور اس سے تناؤ میں اضافے کا خدشہ ہے۔ چین کے ساتھ امریکہ کی محصولات کی جنگ کا آغاز صدر ٹرمپ کے 2017 سے 2021 کے عہد میں ہوا تھا جس دوران بڑے پیمانے پر محصولات عائد کیے گئے۔

بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارتی مسابقت کو جیتنا چاہتے ہیں لیکن وہ کوئی ایسی تجارتی جنگ شروع کرنا نہیں چاہتے جس سے ایک دوسرے پر انحصار کرنے والی معیشتوں کو نقصان پہنچے۔ انہوں نے حالیہ مہینوں میں چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ ون آن ون بات چیت میں کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی تھی۔

صدر بائیڈن نے 1974 کے تجارتی ایکٹ کے سیکشن 301 کے تحت جن محصولات میں اضافہ کیا ہے، ان میں سے کچھ یہ ہیں ۔ الیکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس 25 فی صد سے 100 فی صد ہو جائے گا۔ آئن بیٹریوں اور ان کے پرزوں پر ڈیوٹی 25 فی صد سے 50 فی صد ہو جائے گی۔ کرینوں کی درآمد پر ٹیکس کی شرح صفر سے 25 فی صد، کچھ طبی آلات پر 50 اور کچھ پر 25 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس تجارتی تنازع کے نتیجے میں الیکٹرک گاڑیوں کے پیداواری اخراجات بڑھ سکتے ہیں جس سے بائیڈن کے گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے اہداف اور صنعتی شعبے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

(وی او اے نیوز)



Source

کوئی تبصرہ نہیں

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Exit mobile version