ہوم World جوہری نگران ادارے نے مذمتی قرار داد منظور کی تو جوابی اقدام...

جوہری نگران ادارے نے مذمتی قرار داد منظور کی تو جوابی اقدام کریں گے: ایران

0


  • برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے پیر کے روز بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ کو قرارداد کا ایک مسودہ پیش کیا ہے۔
  • اس میں ایران کی جانب سے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ مکمل تعاون کرنے میں ناکامی کی مذمت اور مزید جوابدہی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
  • گروسی نے خبردار کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں معلومات کے حصول میں جو خلاء پیدا ہو گیا ہے وہ سفارت کاری کی جانب واپسی کو بہت مشکل بنا رہا ہے۔
  • امریکہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ ایران کو جوابدہ ٹھہرانے کی یورپی کوششوں میں کوئی رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
  • ایران کے جوہری توانائی کے سربراہ محمد اسلامی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ فریقین کی جانب سے سیاسی دباؤ کی صورت میں، ایران اپنے اعلان کے مطابق جواب دے گا۔

ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود تین یورپی حکومتوں کی طرف سے تجویز کردہ مذمتی نئی قرارداد منظور کی تو وہ اس کا جواب دے گا۔

فارس خبر رساں ایجنسی نے ایران کے جوہری توانائی کے سربراہ محمد اسلامی کے حوالے سے کہا ہے کہ “بورڈ آف گورنرز میں ایران کے خلاف قرارداد جاری کرنے اور فریقین کی جانب سے سیاسی دباؤ کی صورت میں، ایران اپنے اعلان کے مطابق جواب دے گا۔”

برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے پیر کے روز بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ کو ایک مسودہ قرارداد پیش کیا تھا، جس میں ایران کی جانب سے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ مکمل تعاون کرنے میں ناکامی کی مذمت کی گئی تھی اور مزید جوابدہی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ایران کے ایٹمی توانائی کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا کہ معاہدے کی بنیاد پر “اگر دوسرے فریق اپنے وعدوں پر واپس نہیں آتے تو ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جواب میں اپنی ذمہ داریوں کو کم کر دے، اور اب یہ ملک انہیں کم کرنے کے مرحلے میں ہے۔”

آئی اے ای اے کے بورڈ نے نومبر 2022 کے بعد اس وقت سے ایران پر تنقید کرنے والی کوئی قرارداد منظور نہیں کی ہے، جب ایران نے یورینیم کی افزودگی کو بڑھا کر ردعمل ظاہر کیا تھا۔

امریکی موقف

مارچ میں IAEA کے بورڈ کے اجلاس میں، یورپی طاقتوں نے امریکی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے ایران کی مذمت کرنے کے اپنے منصوبوں کو ملتوی کر دیا تھا۔

سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ ایران کو جوابدہ ٹھہرانے کی یورپی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہا ہے لیکن اسے خدشہ ہے کہ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل اس طرح کی مذمت سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔

نٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ا(IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی 3 جون 2024 کو ویانا، آسٹریا میں ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر میں IAEA کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں شریک ہیں۔

ایران نے بڑی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے ایک تاریخی معاہدے کے ذریعے طے شدہ اپنی جوہری سرگرمیوں پر پابندیوں کی تعمیل کو معطل کر دیا جب امریکہ نے 2018 میں اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر دستبرداری اختیار کر لی تھی اور اس پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔

پیر کو یورپی سفارت کاروں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہھا کہ برطانیہ ، فرانس اور جرمنی، امریکہ کی مخالفت کے باوجود پیر سے شروع ہونے والی اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے بورڈ کی میٹنگ میں ادارے سے تعاون نہ کرنے پر ایران کی مذمت کریں گے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار نہ رکھنے والے ملکوں میں ایران وہ واحد ملک ہے جو 60 فیصد کی بلند سطح تک یورینیم کی افزودگی کرتا ہے اور یورینیم کے بڑے ذخائر بھی جمع کر رہا ہے۔

60 فیصد تک افزودہ یورینیم جوہری ہتھیاروں کے لیے درکار 90 فیصد سطح کے قریب ہے۔ اور جوہری بجلی گھروں کے لے استعمال ہونے والی تین اعشاریہ سڑسٹھ فیصد کی سطح سے بہت بلند ہے۔

پیر کا اجلاس

پیر کے روز اجلاس کے آغاز پر جوہری ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے اپنے خدشات کا اعادہ کیا اور کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے بارے میں گفتگو بھی ناقابل قبول ہے جیسا کہ کچھ لوگ ایران میں کرتے ہیں۔

تہران کے جوہری پروگرام پر اپنے ادارے کی محدود نگرانی کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے گروسی نے خبردار کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں معلومات کے حصول میں جو خلاء پیدا ہو گیا ہے وہ سفارت کاری کی جانب واپسی کو بہت مشکل بنا رہا ہے۔

سرزنش کی قرارداد ایران پر سفارتی دباؤ بڑھانے کے لیے ایک علامتی قدم ہے۔

مارچ میں بورڈ کے آخری اجلاس میں یورپی طاقتوں نے واشنگٹن کی جانب سے حمایت میں کمی کے سبب، ایران کی سرزنش کے منصوبے ملتوی کر دیے تھے۔

امریکی موقف

امریکہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ ایران کو جوابدہ ٹھہرانے کی یورپی کوششوں میں کوئی رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ خدشہ یہ ہے کہ ایران پر سرزنش کے سبب، نومبر میں امریکہ کے صدارتی انتخاب سے قبل، مشرق وسطیٰ کی کشیدگیوں میں شدت آ سکتی ہے۔

ایران اور اقوام متحدہ کے جوہری ادارے کے درمیان حالیہ برسوں میں تعاون میں بہت کمی آئی ہے۔

دریں اثناء گزشتہ ماہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کے بعد، مذاکرات رک گئے ہیں اور سفارت کاروں کا کہنا کہ تہران اس حادثے کو مذاکرات معطل کرنے کے لیے ایک بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

تاہم پیر کے روز گروسی نے اس نکتہ چینی کو یہ کہتے ہوئیے مسترد کر دیا کہ یہ وقفہ ایران کی جانب سے کسی تاخیری حربے کا حصہ نہ تھا۔

قراداد کا جو مسودہ اے ایف پی نے حاصل کیا ہے۔ اس میں تشویش کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ایران، عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے معاہدے میں کیے گئے وعدوں سے بتدریج منحرف ہوتا گیا ہے۔

اس معاہدے کی تجدید کی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

ایران کے رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کے سیاسی مشیر علی شمخانی نے ہفتے کے روز سوشل ویب سائٹ ایکس پر خبردار کیا کہ اگر کچھ گمراہ یورپی ملکوں نے بورڈ کی میٹنگ میں ایران کے خلاف معاندانہ موقف اختیار کیا تو انہیں ایران کی جانب سے شدید اور موثر رد عمل کا سامنا کرنا ہو گا۔

ویانا میں اس بین الاقوامی تنظیم میں روسی سفیر میخائل یولینوو نے اتوار کے روز ایکس پر لکھا کہ بورڈ میں ایران کے خلاف کوئی قرارداد پیش کرنے سے صورت حال کے مزید بگڑنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

مغربی طاقتوں کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم ایران اس دعوے کی ہمیشہ سے تردید کرتا آ رہا ہے۔

اس رپورٹ کے لیے مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔



Source

کوئی تبصرہ نہیں

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Exit mobile version