امریکہ نے بدھ کے روز یمن کے حوثی باغیوں کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں دوبارہ شامل کر دیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اس اقدام کا مقصد بین الاقوامی جہاز رانی پر عسکریت پسندوں کے حملے روکنے کے لیے ان پر مالی پابندیاں بھی عائد کرنا ہے۔
حوثیوں نے ایک تازہ ترین واقعہ میں ایک امریکی بحری جہاز کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں نے کہا کہ ان پابندیوں کے اطلاق کے بعد وہ حوثیوں کے خلاف مالی تعزیرات عائد کریں گے، لیکن اس سلسلے میں یہ خیال رکھا جائے گا کہ اس کا نقصان یمن کے تین کروڑ 20 لاکھ باشندوں کو نہ ہو جن کا شمار دنیا کی غریب ترین آبادی میں ہوتا ہے۔
یمن میں باغیوں کی جانب سے عالمی طور تسلیم شدہ یمنی حکومت کے خلاف حملوں کے بعد اس کی سعودی اتحاد کے خلاف جنگ برسوں جاری رہی۔ جس کے لیے حوثیوں کو ایران وسائل اور ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ اس جنگ نے یمن کو دنیا کے غریب ترین اور قحط کے مارے لوگوں کا ملک بنا دیا ہے۔
امریکہ کے بدھ کے روز کیے جانے والے اقدام کا مقصد انتہا پسند گروپ کے مالی وسائل کا راستہ روکنا ہے۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ نے حوثیوں کو عالمی دہشت گرد اور ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا تھا۔ لیکن ان کے پیش رو صدر بائیڈن نے یمنی باشندوں کو درپیش بھوک، قحط اور دوسرے مسائل کے پیش نظر انسانی ہمدردی کے تحت پابندیاں واپس لے لیں تھیں۔
اسرائیل حماس جنگ میں حوثی باغیوں نے فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کا جواز بنا کر بحیرہ احمر اور آس پاس کے پانیوں میں سے گزرنے والے تجارتی جہازوں پر حملے شروع کر دیے۔ جس کی وجہ سے بین الاقوامی تجارت کے خطرات کھڑے ہو گئے اور بہت سی جہاز راں کمپنیوں نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا جس کی وجہ سے اخراجات اور سفر کے دورانیے میں بھی اضافہ ہو گیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حوثیوں کو تجارتی جہازوں پر حملوں سے باز رہنے کا انتباہ جاری کیا۔ لیکن حملے نہ رکنے کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی فورسز نے یمن میں ان فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جہاں سے حوثی میزائل اور ڈرونز سے حملے کرتے تھے۔
ایران حوثیوں کو مالی وسائل، ہتھیار اور تربیت فراہم کرتا ہے۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ حوثی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں، وہ اپنی کاروائیاں اپنی مرضی اور اپنی منصوبہ بندی سے کرتے ہیں۔
امریکی پابندیوں کے جواب میں حوثیوں کے ترجمان محمد عبدالسلام نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ عسکریت پسند گروپ امریکہ کی جانب سے اس نامزدگی کو غزہ میں فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں یمن کے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہےکہ نئی پابندیوں کا حوثیوں پر کم ہی اثر ہو گا، لیکن سعودی اتحاد کے ساتھ اس کی جنگ میں اضافہ ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے، جو حالیہ عرصے میں امن معاہدے کی وجہ سے کم ہو گئی تھی۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ سے متاثرہ یمن میں دو کروڑ باشندوں کو بھوک اور بیماریوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا ہے۔ یمن میں ایک کروڑ 40 لاکھ لوگوں کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ نئی پابندیوں کے پیش نظر وہاں کے بینکاری نظام، جہازوں کی آمد و رفت اور تجارت خطرے میں پڑ سکتی ہے جس سے یمن کے مصیبت زدہ لوگوں کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے۔ یمن 90 فی صد درآمدی خوراک پر انحصار کرتا ہے۔
بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ خوراک سمیت اہم اشیاء کے لیے پابندیوں میں چھوٹ دے گا تاکہ “یمن کے عوام پر منفی اثرات کو روکنے میں مدد ملے۔
(اس رپورٹ کے لیے اے پی اور رائٹرز سے کچھ معلومات لی گئیں ہیں۔