|
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی مئی میں جس ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہوئے تھے اس کی وجہ موسم کی خرابی اور طیارے میں گنجائش سے زیادہ افراد کا وزن سنبھالنے میں طیارے کی ناکامی تھی ۔ یہ بات بدھ کے روز ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس نے تحقیقات کے حتمی نتائج سے باخبر سیکیورٹی کے ایک ذریعے کے حوالے سے بتائی ۔
تاہم سرکاری میڈیا کے مطابق مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کے کمیو نیکیشن مرکز نے، جو حادثے کی تحقیقات کے بارے میں معلومات شائع کرنے کاذمہ دار ہےکہا ہےکہ یہ رپورٹ “مکمل طور پر غلط” ہے۔
ایران کی فوج کی جانب سے مئی میں جاری ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تحقیقات کے دوران کسی بھی قسم کی مجرمانہ سر گرمی یا حملے کا کوئی ثبوت نہیں پایا گیا۔
سیکیورٹی کے ذریعے نے جس کا نام ظاہر نہیں کیاگیا فارس ایجنسی کو بتایا کہ “آیت اللہ رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے حادثے کے معاملے کی تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں اور مکمل یقین سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ ایک حادثہ تھا۔”
فارس کے مطابق سیکیورٹی ذریعے نے مزید بتایا کہ حادثے کی دو وجوہات کی نشاندہی کی گئی: ناسازگار موسم اور ہیلی کاپٹر پر گنجائش سے زیادہ وزن ، جس کے نتیجے میں وہ ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا۔
ذریعے کے مطابق تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ ہیلی کاپٹر میں اس تعداد سے دو افراد زیادہ تھے جس کی سیکیورٹی پروٹوکول اجازت دیتے ہے۔
رئیسی جنہیں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا ممکنہ جانشین سمجھا جاتا تھا، آذربائیجان کی سرحد کے قریب پہاڑی علاقے میں ہونے والے حادثے میں ہلاک ہوئے تھے۔
صدر رئیسی کے ساتھ وزیرِ خارجہ اور حکام کے علاوہ عملے سمیت آٹھ افراد سوار تھے۔ جو سب اس حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
حادثے میں صدر رئیسی سمیت دیگر افراد کی ہلاکت کی تصدیق 20 مئی کو ہوئی تھی۔
ایرانی حکومت کا ٓکہنا ہےکہ واقعے میں کسی سازش کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے فضائی تحفظ کا ریکارڈ خراب ہے اور وہاں متعدد فضائی حادثات ہو چکے ہیں۔
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ کہ ایران میں اب بھی ایسے طیارے زیر استعمال ہیں جنہیں 1979 کے اسلامی انقلاب سے پہلے خریدیا گیا تھا۔
تہران کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باعث وہ طویل عرصے سے مغربی ممالک سے نئے طیارے یا اسپیئر پارٹس نہیں خرید سکا ہے، جن کی مدد سے کمزور ہوتے ہوئے فضائی بیڑے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔