|
صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اقتدار میں آنے والے اسلام پسند گروپ ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) سے بہت سے شامی باشندے، اس تنظم میں موجود شدت پسند دھڑوں کے اثر و رسوخ سے خوف زدہ ہیں۔
ہیت تحریر الشام کو امریکہ نے ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر نامزد کر رکھا ہے کیونکہ یہ نام اختیار کرنے سے پہلے وہ النصرہ فرنٹ کے نام سے اپنی پہچان رکھتا تھا۔
سال 2017 تک یہ تنظیم شام میں القاعدہ کی ایک ذیلی شاخ کے طور پر کام کرتی تھی۔ تاہم اس نے 2017 میں القاعدہ سے اپنا تعلق باضابطہ طور پر منقطع کر دیا تھا۔
بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف اپنی مسلح مہم شروع کرنے کے بعد محض 11 دنوں میں ایچ ٹی ایس نے شام کے کئی چھوٹے بڑے شہروں پر قبضہ کرنے کے بعد دارالحکومت دمشق کا کنٹرول حاصل کر لیا اور اسد کو اپنے خاندان سمیت روس فرار ہونا پڑا۔
دمشق پر قبضے کے بعد سے ایچ ٹی ایس کے سربراہ احمد الشرع نے، جو اس سے پہلے ابو محمد الجولانی کے نام سے جانے جاتے تھے، ایک ایسی حکومت کے قیام کا وعدہ کیا ہے جو شام کے متنوع نسلی گروپوں اور برادریوں کے درمیان رواداری اور بقائے باہمی پر مبنی زیادہ اعتدال پسند موقف اپنائے گی۔
ان وعدوں اور کوششوں کے باوجود بہت سے شامی باشندوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ آیا نئے حکمران ایچ ٹی ایس میں موجود بنیاد پرست عناصر کو اپنے قابو میں رکھ سکیں گے۔
دمشق کے ایک رہائشی نے، جس نے صرف اپنے نام کا آخری حصہ المصری بتایا، یہ اعتراف کیا کہ نئے حکمران دمشق اور دوسرے علاقوں میں بڑے پیمانے پر نظم و نسق برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ یہ صورت حال عارضی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو پیغام رسانی کی ایک ایپ کے ذریعے بتایا کہ ہمیں علم ہے کہ ہیت تحریر الشام ملک میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہی ہے اور ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
لیکن ان کا یہ کہنا تھا کہ مگر دو چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں میرے حلقے کے لوگ واقعی فکرمند ہیں۔ ایک یہ کہ الشرع اپنے وعدوں پر عمل میں کتنے مخلوص ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کا اپنے گروپ میں موجود کٹڑ بنیاد پرست لوگوں پر کتنا کنڑول ہے۔
المصری ایک سنی مسلمان ہیں۔
اس خوف میں صرف المصری ہی مبتلا نہیں ہیں بلکہ اور بھی بہت سے لوگ ایچ ٹی ایس کی صفوں میں موجود بنیاد پرستوں سے خوف زدہ ہیں۔ دمشق کے ایک اور رہائشی نے، اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی درخواست کے ساتھ وائس آف امریکہ سے بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ شامی باشندے، جن میں قدامت پسند نظریات رکھنے والے بھی شامل ہیں، انتہاپسندی کی طرف مائل نہیں ہیں۔ الشرع کا پرانا نام پکارتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر الجولانی اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہیں اور اپنے لوگوں کو کنٹرول میں رکھتے ہیں تو شامی ان کی حمایت کریں گے۔ لیکن اگر اس گروپ کے اندر موجود انتہاپسند غلبہ پا لیتے ہیں تو شامی ان کے خلاف اسی طرح اٹھ کھڑے ہوں گے جیسا کہ انہوں نے بشار الاسد کے خلاف کیا تھا۔
ان کا اشارہ 2011 میں سابقہ حکومت کے خلاف شروع ہونے والی ایک بڑی عوامی بغاوت کی طرف تھا۔
شام میں اسلام پسند گروپوں کے امور کے ایک ماہر ایمن جواد التمیمی کہتے ہیں کہ اس وقت ہم الجولانی کی قیادت میں ایچ ٹی ایس اور گروپ کے انفرادی ارکان کے درمیان جو تناؤ دیکھ رہے ہیں، وہ اس پراپیگنڈے کا اثر ہے جو برسوں تک ان کے ذہنوں میں دوسرے مذاہب اور فرقوں کے بارے میں انڈیلا جاتا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لیے وہ علویوں اور مسیحوں کے خلاف حملوں اور توہین کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
پیر کے روز مسلح افراد نے وسطی صوبے حما میں ایک مسیحی اکثریتی قصبے سقیلبیہ میں کرسمس ٹری کو نذر آتش کر دیا تھا جس کے فوراً بعد ایچ ٹی ایس نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ آگ لگانے والوں کو، جنہیں گروپ نے غیرملکی جنگجو قرار دیاتھا، سزا دی جائے گی۔
گزر جانے والے برسوں میں کئی ممالک سے جنگجوؤں نے ایچ ٹی ایس میں شمولیت اختیار کی تھی، اگرچہ ان کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے، تاہم ان میں چین کے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ سے تعلق رکھنے والے ایغور سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں۔
“واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی: کے ایک سینئر فیلو آرون زلین کہتے ہیں کہ الجولانی کی موجودہ اعتدال پسند سوچ کی مخالفت میں ایچ ٹی ایس کے مرکزی ارکان میں کوئی اشارے نہیں ملتے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس گروپ میں دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان سے ناراض ہو سکتے ہیں، جو قابل فہم بات ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی سوچ پر عمل کرتے ہیں تو نگران حکومت انہیں گرفتار کر لے گی۔
ایچ ایس ٹی نے یکم مارچ 2025 تک معاملات کو سنبھالنے کے لیے وفاداروں پر مشتمل ایک نگران حکومت کا تقرر کیا ہے۔
واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک “نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ “میں “اسٹریٹجک بلائنڈ سپورٹس پورٹ فولیو ” کے ڈائریکٹر کیرولین روز کا کہنا ہے کہ آخرکار الشرع ایچ ٹی ایس میں سے انتہا پسندوں کو نگران حکومت اور اس کے بعد کی حکومت سے الگ کر دیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا صرف اس صورت ہو سکتا ہے جب غیر ملکی حکومتیں انہیں اعتدال پسندی کی ترغیب اور دباؤ کے خوف کو ایک موقع کے طور پر استعمال کریں۔
(وی او اے نیوز)