|
اسرائیل کی ایک فوجی عدالت نے منگل کو حراست میں لیے گئے 9 فوجیوں کے خلاف الزامات کی ابتدائی سماعت شروع کی۔ دفاع کے ایک وکیل نے کہا ہےکہ ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات ایک ایسی مشتبہ تنصیب کے بارے میں ہیں جہاں اسرائیل نے جنگ کے دوران غزہ سے حراست میں لیے جانے والے قیدیوں کو رکھا ہوا تھا۔
ان تحقیقات نے ملٹری کمانڈ اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت میں ان سخت گیر قوم پرستوں کے درمیان تناؤ کو ہوا دی ہے جو غزہ میں 10 ماہ پرانی جنگ میں اسرائیل کے طرز عمل کی اور بھی سختی کی وکالت کرتے ہیں۔
پیر کو فوجیوں کی حراست کے بعد ان کے برہم حامیوں نے رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے جو مظاہرے کیے، ان میں ارکان پارلیمنٹ اور حکومت کے کم از کم دو وزرا بھی شامل تھے۔
وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی مذمت
وزیر دفاع یوو گیلنٹ، جنہوں نے ان مقامات پر مظاہرین کے داخلے اور توڑ پھوڑ کی مذمت کی، اور اس بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا کہ آیا سخت گیر قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے بلوؤں کے خلاف “پولیس کی جانب سے کاروائی کو روکا تھا یا تاخیر کی تھی”۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کی موجودگی میں کمی نے، مظاہرین کو نکالنے کے لیے فوج کو، فورسز کو اڈوں کی طرف بھیجنے پر مجبور کیا۔ نیتن یاہو کو لکھے گئے خط میں، انہوں نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے”اتحادی ارکان کے خلاف سخت کارروائی کریں جنہوں نے فسادات میں حصہ لیا تھا۔”
بین گویر نے، جن کی وزارت پولیس کی انچارج ہے، نیتن یاہو کو اپنے خط میں جواب دیا ہے کہ فسادات پر پولیس کے جواب میں تاخیر کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
پیر کے روز، بین گویر نے فوجیوں کی حراست کو “شرمناک” قرار دیتے ہوئے انہیں اپنے “بہترین ہیرو” قرار دیا۔ حراستی مراکز کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ “گرمیوں کے کیمپوں اور دہشت گردوں کے لیے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔”
پیر کے روز، کئی سو مظاہرین جنوبی اسرائیل میں واقع حراستی مرکز ’سدیہ تیمان‘ میں گھس گئے تھے، اور پھر بعد میں اس فوجی اڈے میں داخل ہو گئے جہاں فوجیوں کو رکھا جا رہا تھا۔
ویڈیو میں انہیں زبردستی نکالے جانے سے پہلے فوجیوں کے ساتھ ہاتھا پائی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
دفاعی وکیل نیٹی روم نے، جو تین فوجیوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، کہا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور انہوں نے مبینہ بدسلوکی کو “acts of sodomy” سے تعبیر کیا ہے۔ “
فوج نے اے ایف پی کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے ایک حراستی مرکز ’سدیہ تیمان‘ میں قید میں رکھے گئے ایک شخص کے ساتھ نمایاں مشتبہ بدسلوکی کے بعد تحقیقات شروع کر دی ہے۔ تاہم فوج کے بیان میں اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔
اسرائیلی فورسز اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، انسانی حقوق کے علم برداروں، حماس کے زیر قبضہ علاقے کے عہدے داروں اور سابقہ قیدیوں سے نیوز ایجنسیوں نے انٹڑویوز کیے ہیں، ان سب نے حراست کے دروان مبینہ بدسلوکیوں کی بات کی ہے۔
جب کہ اسرائیلی فوج یہ کہتی ہے کہ اس کے حراستی مقامات کے حالات بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتے ہیں۔
فلسطینی قیدیوں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی رپورٹس
ایسوسی ایٹڈ پریس کی تحقیقات اور حقوق کے گروپوں کی رپورٹس نے ’سدیہ تیمان‘ کے فوجی اڈے پر جہاں جنگ کے دوران غزہ میں حراست میں لیے گئے ہزاروں افراد میں سے زیادہ تر کو رکھا گیا ہے، انتہائی ناگفتہ بہ حالات اور زیادتیوں کو بے نقاب کیا ہے۔
اپریل میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں مرکزی اقوام متحدہ فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی، UNRWA نے کہا تھا کہ حراست سے رہا ہونے والے اور غزہ واپس بھیجے جانے والے فلسطینیوں نے، قیدیوں کو برہنہ ہونے پر مجبور کرنے، ان کی برہنہ تصاویر اور جنسی اعضاء پر مار پیٹ کے واقعات رپورٹ کیے ہیں۔ رپورٹ میں اس تنصیب کی وضاحت نہیں کی گئی تھی جہاں زیر حراست افراد کو رکھا گیا تھا۔
قیدیوں نے لوہے کی سلاخوں، بندوق کے بٹوں اور جوتوں سے زدوکوب کیے جانے کی بھی اطلاع دی، UNRWA نے کہا کہ واپس آنے والے قیدیوں میں سے بہت سوں کو زخموں یا بیماری کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
مبینہ بدسلوکی کے علاوہ اب تحقیقات کی جا رہی ہیں، اسرائیلی حکام نے عام طور پر فلسطینیوں کے لیے حراستی مراکز میں بدسلوکی کی تردید کی ہے۔
وسطی اسرائیل کے بیت لِڈ اڈے پر منگل کی دوپہر کی سماعت کے دوران فوجی عدالت سے توقع کی جا رہی تھی کہ آیا فوجیوں کی حراست میں توسیع کی جائے، جس سے نئے مظاہروں کا امکان بڑھ جائے گا۔
دفاعی وکیل روم نے کہا کہ یہ واقعہ ایک ماہ قبل Sde Teiman میں پیش آیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ زیر حراست شخص نے تلاشی کے دوران افسران پر حملہ کیا، اور فوجیوں نے “طاقت کا استعمال کیا لیکن جنسی طور پر کچھ نہیں کیا۔” انہوں نے کہا کہ حراست میں لیا گیا حماس کا ایک اعلیٰ عسکری عہدے دار تھا۔
واقعے کے بارے میں اس کے اکاؤنٹ یا زیر حراست شخص کی شناخت کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
روم ایک قوم پرست قانونی گروپ Honenu کے لیے کام کرتے ہیں جو فلسطینیوں کے ساتھ تشدد کے واقعات پر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنے والے اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کا دفاع کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔
یہ رپورٹ اے پی اور اے ایف پی کی معلومات پر مبنی ہے۔