شمع اور پروانے کے بارے میں متعدد اشعار پڑھے ہوں گے بلکہ دیکھا بھی ہوگا کہ کس طرح پتنگے روشنی کے گرد دیوانوں کی طرح چکر لگاتے ہیں۔
مگر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب صدیوں سے ڈھونڈا جا رہا ہے۔
اب سائنسدانوں نے اس سوال کا ممکنہ جواب دیا ہے جو توقعات سے بالکل برعکس ہے۔
برطانیہ کے امپرئیل کالج لندن کے ماہرین نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جدید ترین ویڈیو گرافی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے دریافت کیا کہ شمع اور پروانے کے عشق کی صدیوں پرانی باتیں افواہیں ہیں، حقیقت تو کچھ اور ہی ہے۔
درحقیقت پتنگے خود کو جگمگانے کے خواہشمند نہیں ہوتے بلکہ یہ ان کا اندرونی جی پی ایس یا میکنزم ہوتا ہے جو انہیں روشنی کے گرد چکرانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
یقین کرنا مشکل ہوگا مگر تیز روشنی ان کے اوپر نیچے ہونے کی حس کو گڑبڑا دیتی ہے۔
کیڑے اپنی پرواز کی سمت کو اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر طے کرتے ہیں کہ آسمان زمین سے کہیں زیادہ روشن ہوتا ہے۔
تو جب انہیں روشنی کا کوئی ذریعہ نظر آتا ہے تو پتنگے اور دیگر کیڑے اپنی سمت کو درست رکھنے کے لیے اس کے گرد چکر لگاتے ہیں، جس کو دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ وہ گھر پر لگے بلب کی روشنی کے عاشق ہیں۔
دیگر سگنلز جیسے کشش ثقل سے جب ان کیڑوں کو متضاد میسجز ملتے ہیں تو ان کے ذہن چکرا جاتے ہیں، جس کے باعث وہ چیزوں سے ٹکرا جاتے ہیں یا زمین پر جاگرتے ہیں۔
آسان الفاظ میں مصنوعی روشنی متعدد کیڑوں کی آسمان کی جانب پوزیشن برقرار رکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے اور وہ ہمارے بلب کے گرد پھنس کر رہ جاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق انسان صدیوں سے روشنی کے اس جال کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ایک صدی عیسوی کے تحریری ریکارڈز میں کیڑوں کے اس رویے کا ذکر ملتا ہے۔
اس کے بعد سے شمع اور پروانے کے تعلق کے بارے میں متعدد خیالات سامنے آئے ہیں، جیسے پتنگے چاند کے گرد گھومتے ہیں، مگر اب تک مناسب ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باعث حقیقت سامنے نہیں آسکی تھی۔
محققین کے مطابق کم روشنی میں چھوٹے کیڑوں کی 3 ڈی ٹریکنگ چیلنجنگ ہوتی ہے اور ماضی میں ضروری ٹولز دستیاب نہیں تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کیمرا ٹیکنالوجی اور ٹریکنگ سافٹ وئیرز میں جدت کے ذریعے ہم نے یہ جانا کہ کیڑے مصنوعی روشنی کے گرد کیوں گھومتے ہیں۔
انہوں نے مختلف اقسام کے 477 کیڑوں کو مصنوعی روشنیوں کے قریب اڑایا تاکہ ان کے رویوں کا مشاہدہ کر سکیں۔
انہوں نے دریافت کیا کہ جب کیڑے مصنوعی روشنی کے قریب ہوتے ہیں تو وہ ایک جان لیوا چکر میں پھنس جاتے ہیں یعنی مرنے تک گھومتے رہتے ہیں یا کسی چیز سے ٹکرا جاتے ہیں، البتہ کئی بار ہوا انہیں راستے سے ہٹا دیتی ہے جس کے بعد وہ بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ہم نے روشنی کے قریب کیڑوں کے رویوں کا مشاہدہ کیا اور اس حوالے سے ہماری روشنی کے طویل فاصلے تک مرتب اثرات پر تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔