کوالالمپور(مانیٹرنگ ڈیسک) ملائیشین ایئرلائنز کی 10سال قبل لاپتہ ہونے والی پرواز ایم ایچ 370کے بارے میں تاحال حتمی طور پر کوئی نہیں جانتا کہ یہ کیسے اپنا روٹ تبدیل کرکے بحر ہند کی طرف آئی اور اس میں گر کر غرق آب ہو گئی، تاہم اس حوالے سے کئی سازشی نظریات ضرور پائے جاتے ہیں۔ ڈیلی سٹار کے مطابق کچھ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اس پرواز کو گوگل میپس پر آخری بار کمبوڈیا کے جنگل میں دیکھا گیا تھا اور یہ بدقسمت ہوائی جہاز سمندر میں نہیں بلکہ کمبوڈیا کے اسی جنگل میں گر کر تباہ ہوا تھا۔
یہ پرواز مارچ 2014ء میں ملائیشیاء کے دارالحکومت کوالالمپور سے چین کے دارالحکومت بیجنگ کے لیے روانہ ہوئی تھی تاہم اڑان بھرنے کے 40منٹ بعد ہی اس کا ریڈار سے رابطہ ختم ہو گیا اور اس کے بعد اس کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا، کوئی حتمی طور پر کچھ نہیں جانتا۔اس پرواز میں 239مسافر سوار تھے، جو جہاز کے ساتھ ہی لاپتہ ہو گئے۔
اس پرواز کی تلاش کا آپریشن چار سال تک جاری رہا اور پھر بند کر دیا گیا تاہم کچھ بین الاقوامی محققین انفرادی طور پر اب بھی اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں اور انہی نے اس کے کمبوڈیا کے جنگل میں گر کر تباہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی کے ریاضی دان ڈاکٹر اسامہ قادری آسٹریلیا کے ساحل پر واقع ہائیڈروایکوسٹک سٹیشن پر اس پرواز کے آڈیو سگنلز ملے تھے، جو اس کی تلاش میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اسامہ قادری کہتے ہیں کہ ’’ہمارے تجزئیے میں معلوم ہوا ہے کہ اس سے قبل حادثات کا شکار ہونے والے طیاروں کے آڈیو سگنلز بھی ہائیڈروفونز پر ملے۔ بعض تباہ ہونے والے طیاروں کے سگنلز تو 3ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے ہائیڈروفونز نے کیچ کیے۔چنانچہ اس پرواز کا سراغ لگانے کے لیے ان سگنلز پر انحصار کرنا چاہیے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق دیگر کئی محققین اس پرواز کے کمبوڈیا کے جنگل میں گر کر تباہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور کچھ سازشی نظریہ ساز اس حوالے سے مختلف کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پرواز سمندر میں گر کر تباہ ہو گئی اور اب اس کا ملبہ سمندر کی تہہ میں کہیں موجود ہے۔ اس پرواز کی تلاش کے لیے ہونے والی 4سالہ کوششوں کے نتیجے میں بھی سب سے مضبوط رائے یہی قائم کی گئی تھی کہ یہ طیارہ سمندر میں گر کر تباہ ہوا۔
اسی طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسے شمالی کوریا نے میزائل سے مار گرایا اور بعض روس کا شاخسانہ بتاتے ہیں۔ تحقیقاتی صحافی جیف وائس کا کہنا ہے کہ اس پرواز کو ممکنہ طور پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے حکم پر ہائی جیک کرکے قازقستان کی طرف لیجایا گیا، جہاں روس کی مرکزی خلائی پورٹ ہے۔